جبری کمشدگیوں کا سلسلہ روکا جائے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
30 اگست 2011منگل کے روز ایمنٹسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام لازمی طور پر جتنی جلدی ممکن ہو سکے بڑے پیمانے پر جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو روکیں اور حراست میں لیے گئے افراد کی وکلاء اور عدالتوں تک رسائی کو ممکن بنائیں۔
ایشیا اور مشرقِ بعید کے لیے تنظیم کےڈائریکٹر سیم ظریفی کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے مبینہ طور پر لاپتہ افراد کے سینکڑوں مقدمات نمٹانے میں معمولی پیش رفت کی ہے تاہم اسی دوران ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کے مزید واقعات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
’تلخ ترین تشدد اور پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ‘ کے نام سے جاری کی گئی رپورٹ میں سال دو ہزار ایک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد سے پاکستان میں جبراً حراست میں لیے گئے سینکڑوں افراد کو خفیہ مقامات پر رکھنے اور ان کی حالت زار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے لوگ، جن پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے ہیں اور حکومت پاکستان کے سیاسی مخالفین جیسا کہ سندھی اور بلوچی قوم پرست گروہوں کے ارکان وہ افراد ہیں، جو لاپتہ ہو رہے ہیں۔
ادھر پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چئیرپرسن آمنہ مسعود کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ڈوئچے ویلےسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمارا خیال تھا کہ جمہوری حکومت آنے کے بعد لوگوں کے اغوا کا سلسلہ ختم کرانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا، امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے حوالے سے پہلے جیسا تعاون جاری ہے۔ امریکہ کے خفیہ معاہدے ہیں، جن کے تحت لوگوں کو اغوا کے بعد اس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
آمنہ مسعود نے کہا، ’’پنجاب میں اس سال اب تک پچاس سے زیادہ افراد کو اغوا کیا جاچکا ہے۔ صورتحال بہت خراب ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پر ایکشن لے رکھا ہے، حکومت نے مختلف کمشن بنا ئے ہوئے ہیں ان میں سے ایک کمشن نے جو رپورٹ دی، اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا۔‘‘
ملک میں جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لیے قانون سازی کے حوالے سے آمنہ مسعود کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر دو افراد کو رہا کر بھی دیا جائےتو مزید دس کو اغوا کر لیا جاتا ہے یہ ایک سلسلہ ہے، جو چلتا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں اس سلسلے کو رکنا چاہیے۔ پاکستان کو ایسا ملک نہیں بننا چاہیے، جہاں بچے باپ کو ترسیں، بیویا ں اپنے شوہروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سڑکوں پر کھڑی ہوں اور بوڑھے ماں باپ بستر مرگ پر اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیے ترسیں۔‘‘
پاکستان میں لاپتہ افراد کا مقدمہ سپریم کورٹ میں جولائی دو ہزار سات سے زیر سماعت ہے، جس کے نتیجے میں چند لوگ بازیاب بھی ہوئے تاہم ان کی تعداد ابھی تک لاپتہ افراد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم ،اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد