جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی میں احتجاج
30 اگست 2018اس دھرنے اور مظاہرے سیاسی اور سماجی کارکنوں کے علاوہ بڑی تعداد میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے بھی شرکت کی۔ شرکاء اپنے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصاویر، پوسٹرز اور بینرز لیے ہوئے تھے اور جبری طور پر لاپتہ ہو جانے والے افراد کی بازیانی کے لیے نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔ ان مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نائب چیئرمین اسد اقبال نے مطالبہ کیا کہ حکومت جبری گمشدگیوں کے غیر قانونی واقعات کے خاتمے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے اور ذمہ دار عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے اور جبری گمشدگیوں کے واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں جبکہ ابھی تک ایسے واقعات کے ایک بھی ذمہ دار فرد کو اس جرم میں سزا نہیں دی جا سکی۔ ماہرین کے بقول یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں لوگ آج بھی لاپتہ ہو رہے ہیں۔
اس حوالے سے قائم تنظیم ’وائس فار مِسنگ پرسنز‘ سندھ کی کنوینر سورٹھ لوہار خود ایک لاپتہ اسکول ٹیچر کی بیٹی ہیں۔ سورٹھ لوہار نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد ہدایت اللہ لوہار پر سندھی قوم پرستوں سے رابطوں کا الزام لگایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اپریل 2017 میں ایک دن سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد دن دیہاڑے لاڑکانہ کے نواح میں واقع ایک اسکول سے میرے والد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ تب سے ان کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔ ہر در کھٹکھٹایا، ہر جگہ مجھے بلایا گیا، بیانات قلم بند ہوئے مگر نتیجہ پھر بھی صفر رہا۔‘‘
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کی مجموعی تعداد سے متعلق اعداد و شمار اگرچہ کافی متنوع اور مختلف ہیں تاہم محتاط اندازوں کے مطابق بھی یہ تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لیے آواز بلند کرنے والے سیاسی اور سماجی کارکنوں کو ہراساں کرنے کے علاوہ ان پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں اور حکومت تاحال اس معاملے میں اپنی کوششوں کے ٹھوس نتائج ثابت نہیں کر سکی۔
کراچی میں آج کے مظاہرے میں شریک علی جعفری تقریباﹰ دو برس سے اپنے چھوٹے بھائی سید شیراز حیدر اور بھانجے سید حسین احمد جعفری کی تلاش میں ہیں۔ علی جعفری نے بتایا کہ ان دونوں کو گلبہار کے علاقے میں ان کے گھر سے رات کی تاریکی میں اٹھایا گیا تھا اور انہیں اپنے ساتھ لے جانے والے افراد میں سے کچھ سادہ کپڑوں میں اور کچھ پولیس یونیفارم میں ملبوس تھے۔ انہوں نے بتایا، ’’یہ دونوں تاحال لاپتہ ہیں۔ ہماری طرف سے شکایت پر تین مشترکہ تفتیشی ٹیمیں بھی بنائی گئیں۔ مگر بات بیانات قلم بند کرنے سے آگے کبھی نہ بڑھی۔‘‘
’وائس آف شیعہ مِسنگ پرسنز‘ کے عہدیدار راشد رضوی کا کہنا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملکی سلامتی کے ادارے لوگوں کی جبری گمشدگیوں میں ملوث نہیں ہیں، ’’ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ لاپتہ افراد کا سراغ لگانا اور جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کو قوم کےسامنے لانا کس کی ذمہ داری ہے؟‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نائب چیئرمین اسد اقبال نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں نئی حکومت قائم ہو چکی ہے، ’’ہمیں توقع ہے کہ عمران خان لاپتہ افراد کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کریں گے کیونکہ جب تک ملک میں ایک بھی شخص جبری طور پر لاپتہ ہے، اس وقت تک تبدیلی کا تصور صرف ایک خواب ہی رہے گا۔‘‘