جرمن اخبارات میں اس ہفتے کا جنوبی ایشیا
10 جولائی 2009ابھی تک يہ معلوم نہيں ہو سکا ہے کہ بے نظير بھٹو کے قتل کے پيچھے کس کا ہاتھ ہے۔ پچھلے ہفتے بدھ کو اقوام متحدہ کے ايک کميشن نے اس بارے ميں تحقيقات کا آغاز کيا۔
اخبار Tageszeitung لکھتا ہے کہ تحقيقاتی کميشن ايک مشکل کام کا آغاز کر رہا ہے۔ پاکستان ميں بے نظیر بھٹو کا قتل ايک سياسی مسئلہ ہے۔ پيپلز پارٹی کی اعلٰی قيادت، خاص طور پر بے نظير کے شوہر اور موجودہ صدر زرداری شروع ہی سے بے نظير کے قتل کو سياسی لحاظ سے استعمال کررہے ہيں۔ مرحومہ نے اپنی کتاب ميں جو ان کی موت کے بعد شائع ہوئی ہے، لکھا ہے کہ مشرف حکومت کے بعض عناصر انہيں مار ڈالنا چاہتے تھے۔ يہ بات سواليہ ہے کہ کيا اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو اس پيچيدہ صورتحال ميں حقيقی مجرم کا سراغ لگانے ميں کاميابی ہو سکے گی؟ انہيں اس جرم کے حوالے سے خود اپنے طور پرتحقيقات کے اختيارات حاصل نہيں ہيں۔
پاکستان ميں اعلیٰ عدالت نے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں ميں ملوث ہونے کے شبے ميں اپنے گھر ميں نظربند حافظ محمد سعيد کی نظربندی اٹھا لينے کا فيصلہ کيا ہے، ليکن حکومت نے اس اہم عدالتی فيصلے کے خلاف اپيل دائر کردی ہے۔کميونسٹ رجحان رکھنے والا اخبار Neues Deutschland لکھتا ہے کہ اس حکومتی اقدام سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات ميں بہتری پيدا ہو سکتی ہے۔ بہرحال، يہ اس ماہ مصر ميں غير جانبدار ممالک کی سربراہی کانفرنس ميں صدر زرداری اور بھارتی وزير اعظم من موہن سنگھ کی ملاقات سے قبل ايک مثبت اقدام ہے۔ صدر زرداری نے حال ہی ميں کہا تھا کہ پاکستان اس وقت شما ل مغرب ميں طالبان کے ساتھ جنگ کے فيصلہ کن مرحلے ميں ہے اور اسے ممبئی کی دہشت گردی پر پوری توجہ دينے کے لئے کچھ مہلت درکار ہے۔ ممکن ہے کہ اب مصر ميں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد پاک بھارت مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہوجائے۔
بھارت اور چين، پہلی بار امريکہ اور دوسرے صنعتی ملکوں کے ساتھ مل کر آب و ہوا کے تحفظ کے لئے ٹھوس اہداف مقرر کرنا چاہتے ہيں۔ اٹلی ميں جی ايٹ کی سربراہی کانفرنس ميں وہ اس پر متفق ہوگئے کہ زمين کو گرم کرنے والی گيسوں کے اخراج ميں اتنی کمی ضروری ہے کہ اس صدی کے آخر تک فضاء کے درجہء حرارت ميں دو ڈگری سينٹی گريڈ سے زيادہ اضافہ نہ ہو نے پائے۔ اخبار Süddeutsche Zeitung تحرير کرتا ہے کہ چين اور بھارت جيسے ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک گرمی ميں اضافہ کرنے والی گيسوں ميں کمی کے ٹھوس وعدے نہيں کرنا چاہتے اور وہ صرف ان ميں اصولی طور پر کمی پر متفق ہوئے ہيں۔ وہ مزيد وعدوں کومغربی صنعتی ملکوں کے اقدامات سے منسلک کرنا چاہتے ہيں۔ اس کے علاوہ ان کا يہ مطالبہ ہے کہ صنعتی ملک تفصیلی طور يہ بتائيں کہ وہ ترقی پذيرملکوں کو کتنی مالی مدد ديں گے۔
تحریر : Ana Lehmann / شہاب احمد صدیقی
ادارت : عاطف توقیر