جرمن الیکشن، میرکل اور شٹائن بروک کا نشریاتی مباحثہ
2 ستمبر 2013اس ٹیلی وژن مباحثے میں اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے امیدوار پیئر شٹائن بروک کی کوشش تھی کہ وہ ایسے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کر سکیں، جو ابھی تک اس کشمکمش کا شکار ہیں کہ ووٹ کسے دیا جائے۔ عوامی جائزوں کے مطابق ذاتی مقبولیت کے حوالے سے کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی خاتون سیاستدان انگیلا میرکل کو اپنے سیاسی حریف پر واضح برتری حاصل ہے۔
ان جائزوں کے نتائج کے مطابق سی ڈی یو اور اس کی لبرل اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی، اپوزیشن ایس پی ڈی اور اس کی ممکنہ اتحادی گرین پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کر لیں گی۔ میرکل اور شٹائن بروک کے مابین نشریاتی مباحثے کو جرمنی کے پبلک اور متعدد نجی ٹیلی وژن چینلوں پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اندازہ ہے کہ قریب بارہ ملین ناظرین نے نوے منٹ دورانیے کا یہ مباحثہ لائیو دیکھا۔
غربت کا خاتمہ، شٹائن بروک کا نعرہ
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اعتدال پسند سیاستدان پیئر شٹائن بروک نے اس مباحثے کے افتتاحی کلمات میں کہا کہ اگر وہ چانسلر کے عہدے کے لیے منتخب کر لیے جاتے ہیں تو ان کی اولین ترجیحات میں غریب اور امیر کے مابین بڑھتے ہوئے فرق کو ختم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ کم از کم تنخواہ کی ایک حد مقرر کرنے کےعلاوہ تمام سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع فراہم کرنے اور پیشہ ور خواتین کی تنخواہوں کو کام کرنے والے مردوں کے مقابلے میں لانے کی کوشش کریں گے۔
اس کے جواب میں انگیلا میرکل نے کہا کہ ان کی مخلوط حکومت نے گزشتہ چار برسوں کے دوران اپنی مالیاتی پالیسیوں سے نہ صرف ’جاب مارکیٹ‘ کو مستحکم بنایا ہے بلکہ تحقیق اور ترقیاتی منصوبہ جات کے حوالے سے بھی اہم اقدامات کیے ہیں۔ میرکل کے بقول اس تناظر میں ان کی کوششیں کافی مؤثر رہی ہیں۔ اپنی مخلوط حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے میرکل نے مزید کہا، ’’گزشتہ چار برس جرمنی کے لیے بہت اچھے رہے ہیں۔‘‘
تیسری مرتبہ چانسلر کے عہدے کی امیدوار میرکل نے کہا کہ کم از کم تنخواہ مقرر کرنے کی ذمہ داری ٹریڈ یونینوں اور آجرین پر عائد ہوتی ہے اور انہیں اس حوالے سے مشترکہ طور پر کوشش کرنا ہوگی، ’’ہمیں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے، جس سے ملازمتوں کے مواقع خطرے میں پڑ جائیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایس پی ڈی کی طرف سے ٹیکسوں میں اضافہ کرنے سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ اس کے جواب میں شٹائن بروک کا کہنا تھا کہ وہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں تاکہ اس کے فوائد عوامی سطح پر محسوس کیے جا سکیں۔
بچتی اقدامات اور جرمن معیشت
یورپی مشترکہ کرنسی یورو استعمال کرنے والے لیکن مالی مشکلات کے شکار ممالک کی مدد کے حوالے سے میرکل نے کہا کہ ان ریاستوں کی مدد کی جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے ہاں اقتصادی اصلاحات متعارف کراتے ہوئے یورو زون کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکیں۔ شٹائن بروک نے یونان کی مالی امداد کے حوالے سے کہا کہ مالی مشکلات کے شکار اس ملک کو مزید رقوم کی ضرورت پڑے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ یورو زون کے رکن ممالک کی مالیاتی مدد کرنے والوں میں سے جرمنی بہت بڑی رقوم ادا کرتا ہے۔
شٹائن بروک کے اعتراض پر میرکل کا کہنا تھا کہ شاید مستقبل میں یونان کو مزید رقوم کی ضرورت پڑے کیونکہ حقیقی طور پر ابھی یہ کوئی نہیں جانتا کہ ایتھنز حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے بچتی اقدامات سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مضبوط یورپ ہی مستحکم جرمنی کی ضمانت ہے۔
جرمنی کے داخلی مسائل
اس ٹیلی وژن مباحثے میں دونوں سیاستدانوں نے جرمنی کو درپیش داخلی مسائل پر بھی اپنی اپنی پالیسیوں کی وضاحت کی۔ جرمنی کی کل آبادی میں بزرگ افراد کی تعداد زیادہ ہے جب کہ بچوں کے لیے تعلیمی منصوبہ جات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میرکل کے بقول ان کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں تین برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے ’ڈے کیئر سینٹرز‘ بنائے ہیں۔
پیئر شٹائن بروک نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں ایس پی ڈی کی مخلوط حکومت، موجودہ حکومت کی طرف سے حال ہی میں متعارف کرائی گئی ’چائلڈ کیئر سبسڈی‘ کو ختم کرتے ہوئے نرسری اسکولوں اور کنڈر گارٹنز میں زیادہ سرمایہ کاری کرے گی۔
میرکل اور شٹائن بروک دونوں نے ہی کہا ہے کہ امریکا اور فرانس کی طرف سے شام پر کیے جانے والے ممکنہ حملے میں وہ ہر گز حصہ دار نہیں بنیں گے۔ میرکل کے بقول شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے تاہم اس سلسلے میں کسی کارروائی سے قبل جرمنی صرف اقوام متحدہ کے متفقہ مینڈیٹ کا انتظار کرے گا۔