’جرمن خفیہ اداروں کے مخبروں میں مہاجرین بھی‘
31 جنوری 2016خبر رساں ادارے ڈی پی اے اور اے ایف پی کی مختلف رپورٹوں کے مطابق جرمن انٹیلی جنس ایجنسی BND اور تحفظ آئین کے وفاقی دفتر نامی خفیہ ادارے BfV نے 2000ء سے لے کر 2013ء تک 850 پناہ گزینوں سے مختلف شعبوں سے متعلق خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے رابطے کیے۔
اس مؤقر جرمن جریدے نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں لکھا ہے کہ اس بارے میں سرکاری تفصیلات وفاقی حکومت کی جانب سے بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’دی لنِکے‘ کے منتخب ارکان پارلیمان کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں مہیا کی گئیں۔
ڈی پی اے کے مطابق وفاقی حکومت کے اس تحریری جواب میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ملکی خفیہ ایجنسیوں نے پناہ گزینوں سے جو معلومات حاصل کیں، وہ کس نوعیت کی تھیں۔
دوسری طرف نیوز ایجنسی اے ایف پی نے آج اتوار 31 جنوری کے روز لکھا کہ یہ عمل اس لیے بھی متنازعہ ہے کہ تارکین وطن کو ان معلومات کی فراہمی کے بدلے جرمنی میں مبینہ طور پر ’پروٹیکشن اسٹیٹس‘ یا تحفظ بھی فراہم کیا گیا، جو انہیں بصورت دیگر حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ ڈیر اشپیگل کے مطابق ان تارکین وطن کو ’مخبری‘ کے بدلے جرمنی میں قانونی حیثیت دلانے کا لالچ دیا گیا تھا۔
ڈی پی اے کے مطابق اس مقصد کے لیے بی این ڈی کے ’مرکزی دفتر برائے تفتیش‘ کو استعمال کیا گیا، جسے بعد ازاں بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم جریدے ڈیر اشپیگل نے سکیورٹی اداروں میں موجود اپنے ذرائع کا نام بتائے بغیر حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ بی این ڈی کے ’مرکزی تفتیشی دفتر‘ کے بند ہو جانے کے بعد بھی حکام مہاجرین کو ’رضاکارانہ مخبروں‘ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔
جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت ’دی لِنکے‘ سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان مارٹینا رَینّر نے اشپیگل کے ساتھ اپنی گفتگو میں ملکی انٹیلی جنس اداروں کے اس عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’اگر خفیہ اداروں نے مہاجرین پر دباؤ ڈال کر معلومات جمع کیں، تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر قابل مذمت ہے بلکہ اس طریقے سے حاصل کردہ معلومات کا قابل بھروسہ ہونا بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔‘‘
برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے ایسی رپورٹوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تارکین وطن کو سیاسی پناہ دلوانے یا تحفظ فراہم کرنے میں جرمن خفیہ اداروں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
ترجمان کا کہنا تھا، ’’مہاجرین کو پناہ یا تحفظ دینے کے فیصلے کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا درخواست گزار کو واقعی پناہ یا تحفظ کی ضرورت ہے۔‘‘