جرمن دیہی علاقے، مہاجرین کے ’انضمام کی تجربہ گاہ‘
25 جنوری 2016وفاقی جرمن صوبے تھیورنگیا کے وزیر زراعت کارل فریڈرش تھوئنے کا کہنا ہے کہ دیہی علاقے مہاجرین کے جرمن معاشرے میں انضمام کی ’تجربہ گاہ‘ ہیں۔ تھوئنے کے مطابق بڑے اور گنجان آباد شہروں کی نسبت ’دیہی علاقوں میں کوئی متوازی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے یہ علاقے تارکین وطن کے سماجی انضمام کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں‘۔
جرمن ادارہ برائے شہری امور سے وابستہ مہاجرین سے متعلق معاملات کی ماہر گُودرُون کِرش ہوف کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہائش کے کم اخراجات اور مقامی باشندوں کے مابین قریبی روابط جیسے عوامل تارکین وطن کے کامیاب انضمام کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
صوبہ باویریا میں واقع ہوف ہائم نامی گاؤں کی آبادی صرف پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس گاؤں کے میئر وولف گانگ بورسٹ کافی عرصے سے گاؤں کی گھٹتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پریشان تھے۔ لیکن مہاجرین کا موجودہ بحران ہوف ہائم کے لیے ایک بہترین موقع لے کر آیا ہے۔
بورسٹ کا کہنا ہے، ’’ہم مطمئن ہیں، کیوں کہ گاؤں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ہوف ہائم میں رہنے والے چار نوجوان شامی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہو چکی ہیں۔ ان میں سے صرف ایک پناہ گزین گاؤں چھوڑ کر جا رہا ہے جب کہ باقی تینوں نے اس گاؤں ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شورش زدہ ممالک سے ہجرت کر کے جرمنی آنے والے تارکین وطن عام طور پر جنگوں اور تباہی کے باعث صدمات کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے بھی دیہی علاقوں کی پرسکون فضا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
ہوف ہائم اور ارد گرد کے دیگر دیہی علاقوں میں 224 تارکین وطن رہ رہے ہیں۔ ان میں سے انیس پناہ گزینوں کو مختلف گھروں میں رہائش فراہم کی گئی ہے۔
علاقے کے لوگوں نے مل کر ’سیاسی پناہ کا حمایتی گروپ‘ کے نام سے ایک سماجی تنظیم بھی بنا لی ہے جو مہاجرین کوجرمن زبان سکھانے کے علاوہ ان کے لیے مختلف کھیلوں کا بندوبست بھی کرتی ہے۔
لیکن دیہی علاقوں میں رہائش اختیار کرنے کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ عام طور پر گاؤں شہروں سے دور ہوتے ہیں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے یا جرمن زبان سیکھنے کے لیے لوگوں کو طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔
علاوہ ازیں سست رفتار انٹرنیٹ اور بازاروں میں کئی اشیاء کا دستیاب نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے جبکہ بعض دیہات میں کچھ مقامی لوگ اجنبیوں کو پسند بھی نہیں کرتے۔
جرمنی کے قصبات اور دیہی بلدیاتی علاقوں کی فیڈریشن سے وابستہ ٹِم فُکس کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو صرف انہی دیہات میں آباد کرنا چاہیے جو معاشی طور پر مستحکم ہیں اور پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں۔