جرمن سیاسی جماعت کا اسلام مخالف منشور اپنانے کا منصوبہ
28 اپریل 2016برلن سے جمعرات اٹھائیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ نامی یہ پارٹی، جو مختصراﹰ AfD کہلاتی ہے، ہمسایہ ملک آسٹریا کی جماعت فریڈم پارٹی جیسے ان سیاسی گروپوں سے متاثر نظر آتی ہے، جنہیں ان کی تارکین وطن کے خلاف سوچ کی وجہ سے یورپ میں کافی حمایت مل رہی ہے۔
اے ایف ڈی ایک مقابلتاﹰ کم عمر سیاسی جماعت ہے، جسے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس وقت جرمنی میں قریب 14 فیصد تک عوامی تائید حاصل ہے۔ یہ پارٹی اس سال چند جرمن صوبوں میں ہونے والے علاقائی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب اگلے برس ہونے والے وفاقی پارلیمانی الیکشن پر بھی نظریں لگائے بیٹھی ہے، جن میں یہ اپنی کامیابی اور بنڈس ٹاگ کہلانے والے پارلیمانی ایوان زیریں میں پہلی بار نمائندگی حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔
ہفتہ تیس اپریل اور اتوار یکم مئی کو اس عوامیت پسند جرمن سیاسی جماعت کا ایک ملک گیر کنوینشن جنوبی شہر شٹٹ گارٹ میں ہو گا۔ اس کنوینشن کے مندوبین کے لیے یہ بات بھی اہم ہے کہ ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے کہ جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں ہونے والے صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں کامیابی فریڈم پارٹی کے امیدوار نوربرٹ ہوفر کے حصے میں آئی تھی۔ آسٹریا میں ابھی نئے صدر کا حتمی انتخاب مکمل تو نہیں ہوا لیکن ملکی سیاست کے لیے یہ حقیقت بھی بڑے دھچکے کا سبب بنی کہ پہلے مرحلے کی رائے دہی میں کامیابی تارکین وطن کی مخالف فریڈم پارٹی کو ملی۔
نظریں اگلے وفاقی پارلیمانی الیکشن پر
جرمنی میں اے ایف ڈی کا قیام صرف تین سال پہلے عمل میں آیا تھا اور اب تک یہ پارٹی نہ صرف یورپی پارلیمان بلکہ ملک کے کل 16 میں سے قریب نصف صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں بھی نمائندگی حاصل کر چکی ہے۔
شروع میں اس جماعت نے یورپی یونین کے یورو زون مین شامل ملکوں میں سے چند کی بری اقتصادی حالت اور انہیں دیے جانے والے مالیاتی بیل آؤٹ پیکجز کو موضوع بنا کر جرمن ووٹروں کو اپنا حمایتی بنایا اور پھر اس کی سوچ زیادہ سے زیادہ دائیں بازو کی طرف جھکتی گئی اور یہ جماعت زیادہ سے زیادہ پاپولسٹ ہوتی گئی۔
اسی دوران اس پارٹی نے گزشتہ برس سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی میں ایک ملین سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کو موضوع بنا کر پناہ گزینوں کی آمد کی مخالفت کرنا شروع کر دی اور اب اس کا نیا نعرہ اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی نشاندہی کرتا ہے۔
اے ایف ڈی مہاجرین کے بحران کے حوالے سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کھلے پن کی پالیسی کی بلند آواز میں مخالفت کرتی رہی ہے اور اسی موضوع کو استعمال کرتے ہوئے ’متبادل برائے جرمنی‘ جرمن عوام کے ایک مخصوص حصے کو کافی حد تک ملک کی مسلمہ سیاسی جماعتوں سے بیزار کر دینے میں بھی کامیاب ہو گئی ہے۔
نئے نازیوں سے دانستہ دوری
جرمنی کے نازی پس منظر اور یہودیوں کے قتل عام کو ذہن میں رکھا جائے تو اے ایف ڈی اپنی سیاست میں اتنی محتاط ضرور رہی ہے کہ اس نے خود کو نئے نازی نظریات سے واضح طور پر دور رکھا۔ دوسری طرف اسی سال بلقان کی ریاستوں نے جب مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے اپنی اپنی قومی سرحدوں کو بند کرنا شروع کیا، تو اے ایف ڈی نے اپنی توجہ براہ راست اسلام کو نشانہ بنانے پر مرکوز کر دی۔
’متبادل برائے جرمنی‘ کی نائب سربراہ اور یورپی پارلیمان کی رکن بیاٹرکس فان سٹورش نے گزشتہ ہفتے یہ کہہ کر تو ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا کہ ’اسلام ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے، جو جرمن آئین سے ہم آہنگ نہیں ہے‘۔
اسلامی علامات پر پابندی کا مطالبہ
بعد ازاں فان سٹورش نے یہ بھی کہا تھا کہ شٹٹ گارٹ میں اس پارٹی کے کنوینشن میں جرمنی میں تمام اسلامی علامات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اس سے ان کی مراد مسجدوں کے مینار تھے، مؤذنوں کی طرف سے دی جانے والی اذانیں اور مسلم خواتین کی طرف سے پورے چہرے کے نقاب کا استعمال۔
جرمنی میں مسلمانوں کی آبادی قریب چار ملین ہے اور چانسلر انگیلا میرکل کئی بار کہہ چکی ہیں کہ ’اسلام آج کے جرمن معاشرے کا حصہ‘ ہے تاہم یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اے ایف ڈی کا اسلام کے بارے میں موقف اسی بارے میں حکومتی موقف کے لیے کھلا چیلنج بھی ہے۔
اے ایف پی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ اسلام دشمنی پر مبنی جس سوچ کی بنیاد پر اے ایف ڈی اپنی سیاست چمکا رہی ہے، اس کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ وہ جرمن معاشرے کو ایک متحدہ سماجی اکائی بنانے میں مدد دینے کی بجائے مزید تقسیم کا شکار کر دے گی۔