جرمن صدر وولف افغانستان میں
16 اکتوبر 2011افغانستان کے دورے پر گئے جرمن صدر کرسٹیان وولف نے کابل پہنچنے کے بعد اپنے افغان ہم منصب حامد کرزئی سے ملاقات کی۔ کرزئی نے جرمن صدر پر ملاقات میں واضح کیا کہ جرمنی افغانستان کا انتہائی دیرینہ دوست ملک ہے اور کابل باہمی تعلقات میں فروغ کا متمنی ہے۔ کرزئی سے ملاقات کے دوران جرمن صدر نے کہا کہ عالمی برادری افغانستان میں تشدد کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی تا کہ یہاں کی معصوم عوام کو بچایا جا سکے۔ جرمن صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ
سکیورٹی کی ذمہ داری جب اس ملک اور با اختیار افغان حکام کو سونپ دی جائے گی تو اس صورت میں بھی ان کا ملک افغانستان کا ایک قابل اعتماد دوست اور پارٹنر رہے گا۔
ایسے امکانات سامنے آئے ہیں کہ دونوں صدور کی ملاقات میں دسمبر میں افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق جرمنی میں منعقد کی جانے والی کانفرنس کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ افغانستان کے بارے میں مجوزہ کانفرنس بون شہر میں شیڈیول کی گئی ہے۔
میزبان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات کے بعد جرمن صدر کرسٹیان وولف نے شورش زدہ ملک افغانستان میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے ملاقات کی۔ جرمن صدر سے ملاقات کرنے والے سول سوسائٹی کے اراکین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کے علاوہ افغان خواتین کے حقوق اور بہبود کے لیے فعال گروپوں کے نمائندے بھی شامل تھے۔
افغان دارالحکومت کابل پہنچنے پر جرمن صدر نے کہا کہ جرمنی افغانستان کا دوست اور اہم پارٹنر ملک ہے اور دونوں ملکوں کے یہ باہمی تعلقات سن 2014 میں اس ریاست سے بین الاقوامی فوجی دستوں کے مجوزہ انخلاء کے بعد بھی قائم رہیں گے۔ اس موقع پر کرسٹیان وولف نے کہا کہ جرمنی افغانستان کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وولف کے مطابق وہ افغانستان میں امن و سلامتی کی ذمہ داریاں نیٹو افواج کی جانب سے مقامی سکیورٹی دستوں کو منتقل کرنے کے عمل کا جائزہ بھی لیں گے۔
وولف کے اس دورے کا سکیورٹی وجوہات کی بناء پر پہلے سے اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ کرسٹیان وولف گزشتہ 44 برسوں میں افغانستان کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے جرمن صدر ہیں۔ کرسٹیان وولف کے پیش رو ہورسٹ کوئلر نے مئی 2010ء میں افغانستان جا کر وہاں جرمن فوجی دستوں سے ملاقات تو کی تھی تاہم تب وہ اپنے افغان ہم منصب کرزئی سے نہیں ملے تھے۔
افغانستان میں جرمنی کے پانچ ہزار کے قریب فوجی تعینات ہیں اور ان کے انخلاء کا سلسلہ اس برس کے آخر میں شروع ہو جائے گا۔ افغانستان میں اب تک کل باون جرمن فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ جرمن عوام میں جرمن فوجیوں کی افغانستان تعیناتی متنازعہ حثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف