جرمن چانسلر اور روسی صدر کے مابین ٹیلیفونک رابطہ
15 نومبر 2024خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چانسلر شولس اور صدر پوٹن کے مابین تقریبا دو سال بعد یہ کسی بھی طرح کا پہلا رابطہ تھا۔ دونوں رہنماؤں کے مابین آخری مرتبہ دسمبر 2022ء میں بات چیت ہوئی تھی۔ یوکرینی جنگ کے شروع ہونے کے بعد روسی صدر کا نیٹو اور مغربی ممالک کے سربراہان حکومت سے بہت کم ہی کوئی رابطہ ہوا ہے۔
شولس نے 2022ء میں پوٹن سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں روسی صدر کے موقف میں تبدیلی آئی ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پوٹن کے موقف میں یہ تبديلی غیر معمولی نہیں۔ اس وقت شولس نے اس بات پر زور دیا تھا کہ یوکرین کے تنازعہ کا حل بات چیت کے ذریعے ہی نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی انہوں نے یوکرینی علاقوں سے روسی افواج کے انخلاء پر بھی زور دیا تھا۔
یوکرین جنگ ہنگامی صورتحال کا باعث بنی ہے، شولس
خیال کیا جا رہا ہے کہ شولس اور پوٹن کی اس بات چیت میں لازمی طور پر یوکرین تنازعے کے پر امن حل کا موضوع زیر بحث آیا ہو گا۔ کیونکہ چانسلر شولس نے ابھی حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے جرمنی کو مالیاتی شعبے میں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔
جرمن اخبار ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ سے بات کرتے ہوئے شولس نے مزید کہا کہ فروری 2022ء میں جب یوکرین کا تنازعہ شروع ہوا تھا تو اندازہ نہیں تھا کہ یہ جنگ کتنے عرصے تک جاری رہے گی، '' اور نا ہی ہمیں یہ پتا تھا کہ یوکرین کے تقریباﹰ ایک ملین مہاجرین کوکتنے عرصے تک جرمنی میں تحفظ کی ضرورت ہو گی۔ ہم نے ماضی میں جو غلط فیصلہ کیا تھا اس کا مطلب یہ نہیں کہ آج ہم حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘ ان کے بقول، '' اصلاحات سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے لیکن اس سے ہمارا راستہ آسان ہو جائے گا۔‘‘
یوکرین جنگ کا حل ممکن ؟
چانسلر شولس نے کچھ دنوں قبل ایک نیوز چینل پر انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یوکرین کے مسئلے پر روسی صدر سے گفتگو کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا تھا، '' ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے جاری رکھا جائے یا اسے روکنے کے لیے راستہ تلاش کیا جائے۔‘‘
اولاف شولس کی یوکرینی صدر سے بھی بات چیت
جرمن حکومت کے مطابق روسی صدر پوٹن کو فون کرنے سے قبل چانسلر شولس نے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا۔ اس بات چیت کی تفصیلات بھی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔ واضح رہے کہ یوکرین جنگ میں جرمنی کییف کو سب سے زیادہ اسلحہ دینے والا ملک ہے۔
ا ش/ ع ا (خبر رساں ادارے)