جرمن چانسلر اولاف شولس کا وسیع تر یورپ کا خواب
31 اگست 2022یہ جرمن چانسلر اولاف شولس کی پرسکون اور جذبات سے تقریباﹰ عاری ایک عام تقریر تھی لیکن اس کے باوجود اس تقریر میں بہت زیادہ مواد موجود تھا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ یورپی یونین کو ایک طاقتور عالمی کھلاڑی، کاروبار اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پسندیدہ اور مشترکہ اقدار پر مشتمل ایک بڑا خودمختار خطہ اور عملی برادری بننا چاہیے ، جو اپنا دفاع کر سکے۔ شولس کے ان خیالات سے کون متفق نہیں ہوگا؟
جرمنی: چانسلر اولاف شولس کی حکومت سے بیشتر جرمن غیر مطمئن
جرمن چانسلر نے یورپی یونین میں توسیع کے لیے اپنی حمایت کا واضح اعلان کیا۔ شولس کے مطابق سب سے بڑھ کر مغربی بلقان کی ریاستیں بلکہ جارجیا، مالدووا اور یوکرائن سب کو یورپی یونین کا رکن بننا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب میں یورپی یونین میں شامل ممالک کی تعداد 36 ہو سکتی ہے۔
یورپ کے لیے بنیادی اصلاحات
شولس نے ایک کھلے اور جدید یورپ کے لیے اپنا وژن پیش کرتے ہوئے کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں روکاٹوں پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اگر ضروری ہو تو جلدبازی میں بھی یورپی قوانین کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
شولس یورپی یونین کی فیصلہ سازی میں اتفاق رائے سے بتدریج علیحدگی اختیار کرنے کے حق میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں عملیت پسندی کے تقاضوں کے تحت اتحاد میں کثرت رائے سے فیصلےکیے جائیں۔ یہ ایک اچھی حکمت عملی ہے جسے بہت پہلے نافذ کر دیا جانا چاہیے تھا۔ یہ حکمت عملی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ یورپی اتحاد مستقبل میں کار گر رہ سکتا ہے۔ یورپی یونین کے ادارہ جاتی دل یعنی یورپین کمیشن اور پارلیمنٹ میں بھی مکمل اصلاحات لانا ہوں گی۔ شولس کا یورپ کی تشکیل نو کا منصوبہ جدید فن تعمیرات میں اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ افادیت ہیئت کے مطابق ہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکسی بھی ڈھانچے کے ڈیزائن سے اس میں رونما ہونے والی سرگرمیوں کا پتہ چلنا چاہیے۔ یہ جرمن عملیت پسندی کا ایک بہترین نمونہ بھی ہے۔
چیک میزبان کی جرمن وژن میں عدم دلچسپی
لیکن مشرقی یورپ میں فی الحال اس عملیت پسندی کو سمجھا نہیں جا رہا ہے یا اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ مشرقی یورپ میں پائے جانے والے جرمن غلبے کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے شولس نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی تجاویز کوئی ''تیار شدہ حل نہیں‘‘ ہیں بلکہ یہ صرف سوچ و فکر کی دعوت ہیں، جن پر وہ بات کرنا چاہیں گے۔
لیکن پھر شولس کے میزبان چیک ریپبلک کے حکام نے اپنے مہمان کا مقامی طلبا کے ساتھ سوال و جواب کا ایک طہ شدہ پروگرام مختصر نوٹس پر منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد جرمن چانسلر نے اپنے چیک ہم منصب پیٹر فیالا کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کی۔ تاہم ان دونوں رہنماؤں کی بات چیت یورپی تصورات کے بارے میں نہیں تھی بلکہ موجودہ بحران کی روشنی میں توانائی کی فراہمی کے بارے میں تھی۔ شولس کی تجویز کے مطابق یورپی یونین کی بنیادی تشکیل نو نے ان کے چیک میزبان کو متاثر نہیں کیا۔ فیالا نے واضح کیا کہ چیک جمہوریہ یورپ میں اکثریتی ووٹنگ میں توسیع کے خلاف ہے۔ لیکن فیالا نے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ مبینہ’’تکنیکی مشکلات‘‘ کی وجہ سے شولس کی تقریر نہیں سن پائے تھے ۔ میزبان کے اس اعتراف سے چند لمحوں کے لیے ایک جھلاہٹ کی فضا چھا گئی۔
یہ جرمن چانسلر کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہیےتھا، خاص طور پر جب انہوں نے یورپ کے بارے میں اپنی کلیدی تقریر کے لیے جگہ کے طور پر چیک دارلحکومت پراگ کا انتخاب کیا تھا - شولس نے ایسا صرف اس لیے نہیں کیا تھا کہ چیک جمہوریہ اس وقت یورپی یونین کی صدارت پر فائز ہے بلکہ وہ مشرقی یورپ کی طرف ایک دانستہ اشارہ بھی کر رہے تھے۔ اولاف شولس کا کہنا تھا، '' یورپ کا مرکز مشرق کی طرف مڑ رہا ہے۔‘‘
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ وہ ولادیمیر پوٹن کا یورپ پر حملہ برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے یوکرین کی تعمیر نو میں امداد اور یورپ کی مشترکہ سلامتی میں سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا۔ اس بارے میں اپنی دیگر تجاویز کے ساتھ ساتھ شولس نے یوکرینی توپ خانے اور فضائی دفاع کے نظام کو براہ راست جرمنی کی نگرانی میں لینے کی تجویز بھی پیش کی۔ ان کی یہ تجویز صرف ایک دکھاوا نہیں تھی بلکہ یہ یورپ کی تاریخ میں ایک نیا موڑ تھا۔
یوکرین میں جنگ: جرمنی کی حکمت عملی کیا ہے؟
شولس میں مشرق کے احساس کی کمی
جرمن چانسلر نے یورپ سے متعلق اپنی تقریر میں زیادہ جوش و خروش پیدا نہیں کیا اس کا پتا یوں بھی چلتا ہے کہ ان کی تقریر کے دوران تالیاں نہیں بجائی گئیں اور صرف آخر میں ہلکی سی تالیاں بجانے پر اکتفا کیا گیا۔ شولس نے صیح تار نہیں چھیڑےتھے۔ مشرقی یورپ کے رہنے والوں کو برلن سے تعمیری سمجھوتے کی تجاویز پر قائل کرنے کی بجائے وہ قانون کی حکمرانی کے بارے میں راگ الاپاتے رہے، جو ایک حساس موضوع ہے۔ جرمن چانسلر کو مبہم دھمکیاں دینے کے بجائے اعتماد کو فروغ دینا چاہیےتھا۔ مشرقی یورپ میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر جرمنی کی ساکھ بری طرح خراب ہوئی ہے۔
اولاف شولس کے پاس مشرقی یورپ کے لیے احساس کی کمی پائی جاتی ہے، جو اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہوگا۔ چانسلر کے پاس جدید یورپی یونین کے لیے ایک واضح وژن ہے۔ لیکن اگر وہ مشرقی پڑوسیوں کے دل نہیں جیت سکتے تو وہ ایک خواب دیکھنے والےجرمن سے زیادہ کچھ نہیں ہوں گے۔
روزالیا رومانیئچ (ش ر ⁄ ک م)
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں تحریرکیا گیا تھا۔