جرمن چانسلر میرکل ترکی پہنچ گئیں، ایردوآن سے ملاقات
2 فروری 2017بحیرہٴ روم کی جزیرہ ریاست مالٹا میں یورپی یونین کی سربراہ کانفرنس میں بنیادی موضوع مہاجرین کا بحران ہے اور اس کانفرنس سے ایک روز قبل چانسلر انگیلا میرکل ترکی میں صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیر اعظم بن علی یلدرم کے ساتھ اُس ڈیل پر بات کر رہی ہیں، جو گزشتہ برس یورپی یونین اور انقرہ کے درمیان طے ہوا تھا اور جس کا مقصد یورپ کی جانب مہاجرین کے بہاؤ کو روکنا ہے۔
انگیلا میرکل ترکی میں گزشتہ سال جولائی کی اُس ناکام بغاوت کے بعد سے پہلی مرتبہ ترکی کا دورہ کر رہی ہیں، جس کے بعد اس ملک میں ایک بڑا حکومتی کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا تھا۔ شروع شروع میں یہ کریک ڈاؤن امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کے حامیوں کے خلاف تھا، جنہیں موجودہ ترک حکمران بغاوت کے پیچھے کارفرما اصل قوت سمجھتے ہیں تاہم بعد ازاں اپوزیشن کے دیگر دھڑے بھی حکومتی کریک ڈاؤن کی زَد میں آتے چلے گئے۔
اب تک ترکی میں گولن کے تینتالیس ہزار سے زیادہ حامیوں کو جیل ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انقرہ حکومت نے کُرد قوم پرستوں کے خلاف بھی، جنہیں وہ دہشت گردی کے لیے مُوردِ الزام ٹھہراتی ہے، اپنے اقدامات تیز تر کر دیے ہیں۔
جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر رکن ملکوں نے اس امر پر تشویش کا اظہارکیا ہے کہ ایردوآن اپنے ملک میں آئین اور قانون کی حکومت اور اظہارِ رائے کی آزادی کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ میرکل کا دورہ ترکی میں صدارتی نظام رائج کرنے کے موضوع پر مجوزہ ریفرنڈم سے پہلے عمل میں آ رہا ہے اور یورپی یونین کا موقف یہ ہے کہ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں ملکی آئین میں ترامیم متعارف کروانے کے منصوبے کا مقصد پارلیمنٹ کو کمزور کرنا اور صدر کے عہدے کے اختیارات میں بڑے پیمانے پر توسیع کرنا ہے۔
ترک حکومتی قائدین کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد میرکل شام کو بائیں بازو کی اعتدال پسند پیپلز ری پبلکن پارٹی (CHP) اور کُرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے ارکان کے ساتھ بھی ملاقات کر رہی ہیں۔
ایچ ڈی پی بھی گزشتہ کئی مہینوں سے حکومت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور درجنوں منتخب میئرز اور بارہ اراکینِ پارلیمان سمیت اس کے ہزاروں ارکان جیلوں میں ہیں۔ ان سب پر اکثر دہشت گردانہ پراپیگنڈا پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ایچ ڈی پی کا کہنا یہ ہے کہ اُسے نئے آئین کی مخالفت کرنے اور اختیارات کی عدم مرکزیت کی تجویز دینے پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ سال جولائی کی ناکام بغاوت سے پہلے ہی جرمنی اور ترکی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے، جزوی طور پر اس بات پر بھی کہ برلن پارلیمنٹ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کی جانب سے آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کُشی قرار دے دیا تھا۔
ناقدین میرکل پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ جرمنی میں آئندہ عام انتخابات میں مہاجرین مخالف جماعت ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ کی طرف سے درپیش چیلنج کے پیشِ نظر انتخابات سے پہلے جرمنی میں مہاجرین کی آمد میں اضافے کو روکنا چاہتی ہیں اور اسی لیے ایردوآن کے زیرِ بارِ احسان نظر آتی ہیں۔
اُدھر ترکی اس بات پر برہم ہے کہ اگرچہ وہ شام سے ترکی پہنچنے والے دو ملین سے زائد شامی مہاجرین کی میزبانی کرنے پر مجبور ہے تاہم یورپ اس سلسلے میں اُس کی مدد نہیں کر رہا ہے۔ ترکی یہ بھی چاہتا ہے کہ یورپی ممالک مہاجرین کو اپنے ہاں بسانے کی کوششیں تیز تر کریں۔
ترک قائدین کے ساتھ ملاقاتوں میں اُن ترک فوجیوں کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آنے کی توقع کی جا رہی ہے، جو انقرہ حکومت کو گزشتہ سال کی ناکام بغاوت کے سلسلے میں مطلوب ہیں اور جنہوں نے جرمنی پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواستیں دے دی ہیں۔