جرمن کتابی صنعت کا امن انعام کینیڈین ادیبہ اَیٹ وُڈ کے لیے
15 اکتوبر 2017جرمنی کے مالیاتی مرکز اور ہر سال منعقد ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلے کے میزبان شہر فرینکفرٹ سے اتوار پندرہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ کئی دنوں سے جاری امسالہ فرینکفرٹ بک فیئر کے اختتامی روز کینیڈا کی اس مشہور ناول نگار کو یہ انعام اسی شہر کے تاریخی سینٹ پال کلیسا میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں دیا گیا۔
مارگریٹ اَیٹ وُڈ (Margaret Atwood) کی عمر اس وقت 77 برس ہے۔ وہ بین الاقوامی سطح پر بہت پسند کیے جانے والے کئی ناولوں کی مصنفہ ہیں لیکن ان کا مشہور ترین ناول ’دا ہینڈمیڈز ٹیل‘ (The Handmaid's Tale) ہے۔ کینیڈا کی یہ خاتون ناول نگار ایک سرگرم سماجی کارکن بھی ہیں۔
نوبل انعام برائے ادب جاپانی نژاد برطانوی ناول نگار کے نام
بھارت خود کو اپنی ہی نوآبادی بناتا جا رہا ہے، ارون دتی رائے
بیسویں صدی کے معروف سائنس فکشن ادیب کا انتقال
مارگریٹ اَیٹ وُڈ مجموعی طور پر وہ دسویں خاتون ہیں، جنہیں جرمنی کے ’پیس پرائز آف جرمن بک ٹریڈ‘ کہلانے والے اس معروف ادبی انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ سالانہ انعام دینے کا سلسلہ 1950ء میں شروع کیا گیا تھا اور اس امن انعام کے ساتھ اس اعزاز کی حقدار شخصیت کو 25 ہزار یورو یا قریب 30 ہزار امریکی ڈالر کے برابر رقم بھی دی جاتی ہے۔
اَیٹ وُڈ صرف ایک ناول نگار ہی نہیں بلکہ وہ ایک شاعرہ بھی ہیں۔ ان کے اعزاز میں اتوار پندرہ اکتوبر کو منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ہائنرش رِیٹ میولر نے کہا، ’’مارگریٹ اَیٹ وُڈ نے آج تک جتنا بھی فکشن یا نان فکشن تخلیق کیا ہے، اس میں انسانیت کی طرف سے انصاف اور برداشت کے جذبوں کی تلاش کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔‘‘
باتصویر کتابیں: ممتاز سویڈش ادبی ایوارڈ جرمن فنکار کے لیے
بوب ڈلن نوبل انعام وصول کرنے کو تیار ہو گئے
کارولین ایمکے کے نام جرمن بک انڈسٹری کا امن انعام
ہائنرش رِیٹ میولر نے کہا، ’’اَیٹ وُڈ امن اور آزادی کی چیمپئن ہیں۔ انہوں نے یہ واضح کر کے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں کہ اگر ہم پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمے داریاں پوری نہ کریں، تو یہی دنیا کتنی اداس اور تاریک نظر آنے لگے گی۔‘‘
یہ انعام وصول کرتے ہوئے مارگریٹ اَیٹ وُڈ نے تقریب کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا، ’’کہانیاں بہت طاقت ور ہوتی ہیں۔ وہ اس بات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں اور کیا محسوس کرتے ہیں۔ یہ اثر مثبت اور منفی دونوں طرح کا ہو سکتا ہے۔‘‘