جرمنی: جبراً واپس بھیجے جانے والوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی
21 دسمبر 2015رواں برس نومبر کے اواخر تک جرمنی سے واپس بھیجے جانے والوں کی تعداد 18,363 رہی جبکہ پچھلے سال کُل 10,884 افراد کو واپس بھیجا گيا تھا۔ يہ اعداد و شمار جرمن وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کيے گئے ہيں۔ کئی جرمن رياستوں ميں رواں برس زبردستی واپس بھیجے جانے والوں کی تعداد ميں تين گنا اضافہ ريکارڈ کيا گيا۔ صوبے باویریا ميں گزشتہ برس سياسی پناہ کے 1007 ناکام درخواست دہندگان کو واپس بھیجا گيا تھا جب کہ اس سال نومبر کے اختتام تک يہ تعداد 3,643 تھی۔ ايک اور جرمن رياست ہيسے ميں 2014ء ميں ڈی پورٹ کيے جانے والوں کی مجموعی تعداد 829 تھی جو 2015ء ميں 2,306 رہی۔
يہ امر اہم ہے کہ يورپ کو ان دنوں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اپنی تاريخ میں مہاجرين کے بد ترين بحران کا سامنا ہے۔ پناہ گزينوں کے حوالے سے يورپی رياستوں ميں شديد اختلافات پائے جاتے ہيں، جس کے سبب اٹھائيس رکنی يورپی بلاک اور شينگن زون خطرے ميں ہيں۔
شام، عراق، افغانستان اور ديگر شورش زدہ ملکوں سے سياسی پناہ کے ليے يورپ پہنچنے والے مہاجرين کی اولين ترجيح يہی ہوتی ہے کہ وہ کہیں اور نہیں بلکہ جرمنی ہی پہنچ کر اپنی درخواستيں جمع کرائيں۔ يہی وجہ ہے کہ سن 2015 ميں اب تک ايک ملين سے زائد پناہ گزين يہاں پہنچ چکے ہيں۔ داخلی سطح پر دائيں بازو کے گروپوں اور حکومت کی اتحادی پارٹيوں کی مخالفت سميت متعدد انتظامی مسائل کے سبب حکام کو شديد دشواريوں کا سامنا ہے۔ اسی سبب جرمن حکومت نے نئے قوانين متعارف کراتے ہوئے سياسی پناہ کے مرحلے کو سخت تر بنا ديا ہے اور پناہ کی درخواستیں رَد ہونے کے بعد درخواست دہندگان کو جبراً واپس بھیجنے کے عمل ميں بھی تيزی ديکھنے ميں آئی ہے۔
جرمن رياست ہيسے کے شہر فرينکفرٹ کا ہوائی اڈہ ملک کا سب سے مصروف اور سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے۔ يہ وہی مقام ہے جہاں بہت سوں کے خواب ٹوٹتے ہيں۔ تقريباً روزانہ ہی وہاں سے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کو واپس اُس وطن میں بھیجا جاتا ہے، جہاں سے وہ یورپ میں ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر نکلے تھے۔ کچھ افراد کی سياسی پناہ کی درخواستوں کا نامنظور ہونا اُنہیں ڈی پورٹ کیے جانے کا سبب بنتا ہے تو سينکڑوں کو ’ڈبلن ريگوليشن‘ کے تحت ان يورپی ملکوں کی طرف بھيج ديا جاتا ہے، جہاں ان کا سب سے پہلے اندراج ہوا تھا۔
امدادی تنظيم کاريٹاس سے منسلک رابرٹ زائدر بتاتے ہيں، ’’لوگ يہاں آ کر صدمے سے دوچار ہو جاتے ہيں۔‘‘ ان کے مطابق کئی پناہ گزيوں کو آدھی رات ميں گہری نيند سے اٹھا کر ہوائی اڈے کے ٹرمينل تک پہنچا ديا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو سامان وغيرہ باندھنے کے ليے ايک گھنٹے تک کی مہلت بھی نہيں دی جاتی۔ زائدر کے بقول بہت سے لوگ اٹلی، بلغاريہ اور ہنگری جيسے ملکوں ميں سڑکوں پر وقت گزار کر آ چکے ہوتے ہيں اور وہ ہرگز وہاں واپس جانے کے خواہاں نہيں ہوتے۔
سال رواں ميں اب تک فرينکفرٹ ايئر پورٹ سے قريب چار ہزار افراد کو روانہ کيا جا چکا ہے۔ اس عمل کے دوران جہاں کچھ لوگ رضاکارانہ طور پر حکام کے ساتھ تعاون کرتے ہيں، وہيں چند ايک ان کے ليے مسائل کا سبب بھی بن جاتے ہيں۔ حال ہی ميں ايک پاکستانی پناہ گزين نے ملک بدری کے وقت ايک بليڈ کی مدد سے اپنی گردن زخمی کر لی تھی تاہم بروقت طبی امداد سے اسے بچا ليا گيا۔