جرمنی: مسترد شدہ پناہ کے متلاشیوں کی فوری ملک بدری پر غور
3 ستمبر 2023جرمنی کی اپوزیشن پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ فریڈرش میرس مزید کئی ملکوں کو پناہ گزینوں کے لیے 'محفوظ ممالک' کی فہرست میں شامل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اِن ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو درخواست مسترد ہونے کے فوراﹰ بعد ملک بدر کیا جاسکے۔
میرس نے اس حوالے سے جرمن اخبارات کے فنکے میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے تیونس، مراکش، الجزائر اور بھارت کو ایسے ممالک کے طور پر نامزد کیا جنہیں اس فہرست میں مزید شامل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب برلن حکومت پہلے ہی جیورجیا اور مولدووا کو سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے محفوظ ملک قرار دینا چاہتی ہے۔ اس اقدام کے لیے جرمن پارلیمان کی منظوری ملنا باقی ہے۔
سی ڈی یو کے سربراہ نے کیا کہا؟
میرس نے حکومت کے منصوبوں میں بیان کردہ دونوں ملکوں کے علاوہ فہرست کو کافی حد تک وسیع کرنے کا مطالبہ کیا۔
قدامت پسند سیاست دان نے کہا کہ جرمنی اس دنیا میں ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے جو ظلم و ستم کا شکار ہیں، "لیکن ہمیں اس معاملے میں مزید آگے نہیں بڑھنا چاہیے، کیونکہ اس کی حد فی الحال پار ہو چکی ہیں۔"
انہوں نے تیونس، مراکش، الجزائر اور بھارت کو ایسے ممالک کے طور پر نامزد کیا جنہیں فہرست میں مزید شامل کیا جا سکتا ہے۔ میرس نے کہا کہ ان ممالک کے شہریوں کے لیے پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح کم سے کم ہونی چاہیے۔
ان کے بقول، "ان ممالک کو محفوظ ممالک کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے تاکہ ہم وہاں ان (لوگوں) کو فوری طور پر واپس بھیج سکیں۔"
'محفوظ ملک' سے کیا مراد ہے؟
اگر جرمن حکومت کی جانب سے کسی ملک کو محفوظ قرار دیا جاتا ہے تو وہاں سے تعلق رکھنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی درخواست کو مقامی حکام تیزی سے پراسس کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پناہ کے متلاشی شخص کو انتہائی ٹھوس وجہ ثابت کرنا ہوگی کہ صرف اس کی جان کو وہاں کیوں خطرہ لاحق ہے جبکہ وہاں سکیورٹی کی عمومی صورت حال تسلی بخش ہے۔
اس سے حکام کے لیے ایسے لوگوں کو ملک بدر کرنا یا وطن واپس بھیجنا آسان ہوجاتا ہے جن کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔
موجودہ فہرست میں یورپی یونین کے رکن ممالک، گھانا، سینیگال، بوسنیا اور ہرزیگوینا، سربیا، البانیہ، کوسوو، مونٹی نیگرو اور شمالی مقدونیہ شامل ہیں۔
جرمنی میں مہاجرت کا موضوع پھر گرم
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جرمن سیاستدانوں نے مراکش، الجزائر، تیونس اور بھارت کو بھی محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپریل میں شولس کی سوشل ڈیموکریٹ جماعت ایس پی ڈی کے اراکین نے بھی میرس کی طرح فہرست میں توسیع کا مطالبہ کیا تھا۔
پناہ کے متلاشی افراد کو امداد فراہم کرنے والے رائٹس گروپ اور تنظیمیں اکثر "محفوظ" فہرست میں شامل کئی ممالک پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ خاص طور پر ایسے ممالک پر جہاں جمہوریت اور قانون کی پاسداری کا فقدان ہے اور جہاں LGBT کمیونٹی کے خلاف منفی رائے پائی جاتی ہے۔
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی میں ووٹروں کے لیے معیشت کے بارے میں تشویش کے بعد دوسرے نمبر پر مائیگریشن اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد جیسے معاملات ایک بار پھر اہم ترین خدشات میں شامل ہیں۔
یہ پیش رفت انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی اے ایف ڈی (AfD) کی حمایت میں اضافے کے دوران سامنے آئی ہے، جو کہ امیگریشن مخالف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے مہم چلاتی ہے۔
ع آ / ر ب (مارک ہیلم)