جرمنی میں مِکّی ماؤس کے پینسٹھ سال
29 اگست 2016جرمن نیوز میگزین ’ڈیئر اشپیگل‘نے مارچ 1951ء میں ایک رپورٹ شائع کی، جس کا عنوان تھا ’’کومک، بچوں کے لیے افیون‘‘۔ اس کے باوجود 29 اگست 1951ء کو مِکّی ماؤس کا پہلا شمارہ جرمنی کی مختلف دکانوں پر فروخت کے لیے پیش ہوا۔ ابتدا میں اس کی قیمت 75 فینگ تھی اور یہ ہر ماہ شائع کیا جاتا تھا۔ جرمنی میں شائع ہونے والا یہ پہلا مکمل طور پر رنگین رسالہ تھا، جس میں ایک پوری کہانی بیان کی جاتی تھی۔ آج اُس پہلے شمارے کی قیمت ہزاروں یورو کے برابر ہے۔
فرینکفرٹ میں نوجوانوں کے امور پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور میں جرمن نوجوانوں میں مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافے کی ذمہ داری امریکی کومکس پر ہی عائد کی جاتی تھی۔ اُس دور میں جرمن شہری ایسی تصاویر سے تو واقف تھے، جن کے نیچے اشعار درج ہوتے تھے لیکن کومکس ان کے لیے ایک نئی چیز تھی۔ کومکس میں تصویر کے اندر ہی چھوٹے چھوٹے الفاظ میں تحریر لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی فوجیوں کے ذریعے جرمنی میں پہنچنے والی ان رنگ برنگی تصاویر اور ان دلکش کہانیاں کا ایک سونامی آ گیا۔ ابتدا میں جرمن شہری ان داستانوں میں استعمال کیے جانے والے الفاظ اور ان کے طرز بیان سے بظاہر کچھ زیادہ متاثر نہیں ہوئے تھے۔
تاہم تمام تر مخالفت اور تنقید کے باوجود ڈزنی کے کردار مِکّی ماؤس نے تاریخ رقم کی۔ اس دوران 1950ء کی دہائی کے آخر میں مختلف جرمن حلقے اس نتیجے پر پہنچے کہ والٹ ڈزنی کی کومکس معاشرتی سطح پر نقصان دہ نہیں ہیں۔ اس کے بعد جرمنی میں مِکّی ماؤس کی کارٹون فلموں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔ اس کا مقصد جرمنی میں مِکّی ماؤس کے کردار کے بارے میں رائے عامہ کو ہموار کرنا تھا۔
جرمنی کے پہلے کومک میوزیم کی سربراہ الیگزانڈرا ہینشل کہتی ہیں کہ 1957ء کے بعد یہ رسالہ ماہانہ کی بجائے ہفتہ وار بنیادوں پر شائع ہونے لگا اور انتہائی مقبولیت اختیار کر گیا۔ اس کامیابی کا سہرا رسالے کو جرمن زبان میں ترجمہ کرنے والی ایریکا فکس کے سر جاتا ہے۔ وہ 1951ء سے1988ء تک اس رسالے کی مدیر اعلٰی تھیں۔ ہینشل کے بقول ،’’انہوں نے ان امریکی کومکس کو ایک نیا انداز دیا۔‘‘ نوجوانوں کے امور پر تحقیق کرنے والے ادارے سے منسلک ڈولے کے مطابق مِکّی ماؤس ایک ادبی شاہکار بن چکا ہے کیونکہ کئی نسلیں مِکّی ماؤس کو دیکھ دیکھ کر جوان ہوئی ہیں۔