جرمنی میں ٹرانس جينڈرز کے نئے قانون پر جلد عملدرآمد
3 نومبر 2024جرمنی نے ٹرانس جینڈر، انٹر سیکس اور غیر بائنری لوگوں کے لیے نئے حقوق متعارف کرائے ہیں، جن سے دستاويزات ميں جنس تبدیل کرنا آسان ہو جائے گا۔ قدامت پسند حلقے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
نومبر کے اوائل سے جرمنی کے نئے ''خود ارادیت ایکٹ‘‘ کے تحت 18 سال سے زیادہ عمر کے افراد دستاويزات ميں اپنے نام اور جنس کو تبدیل کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں اس تبدیلی کا اندراج کرا سکیں گے یا ان دستاویزات سے 'جنس مارکر‘ کو یکسر مٹوا سکیں گے۔
اس سلسلے میں درخواست دینے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کے درمیان تین ماہ کے عرصے کا انتظار لازمی ہے۔ ساتھ ہی اس قانونی عمل کے لیے 'نفسیاتی تشخیص‘ اور عدالتی سماعت کی ضرورت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
نابالغ 14 سال سے زیادہ عمر کے افراد والدین کی منظوری سے ایسا کر سکتے ہیں، یا قانونی سہارا حاصل کر سکتے ہیں۔ والدین چھوٹے بچوں کی طرف سے اس بارے میں عملی اقدام کر سکتے ہیں لیکن بچے کی رجسٹریشن کے ليے آفس میں موجودگی اور اپنی رضامندی دینا لازمی ہے۔
جرمنی میں تبدیلی جنس کی آسانی کا قانون
یہ مکمل طور پر بیوروکریٹک طریقہ کار ہے جس میں کوئی طبی مضمرات کار فرما نہیں ہیں۔
زیادہ قابل رسائی، کم مہنگا، مداخلت کا کم امکان
کالے ہیومفنر جرمن ٹرانس ایسوسی ایشن (BVT) کے پالیسی آفیسر ہیں۔ وہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ صنفی خود شناسی اب کہیں زیادہ قابل رسائی اور کم خرچ ہوگی۔ انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ نئے قانون کے تحت اس عمل میں دخل اندازی کے بہت کم امکانات رہ جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں،''تشخیص میں، لوگوں کو بہت ساری ذاتی معلومات بتانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ عدالت کے ساتھ ذاتی معلومات شیئر کی جاتی تھیں۔ لوگوں کو اپنی جنسی ترجیحات، اپنی مشت زنی کے طریقوں، یا ان کے زیر جامہ کے انتخاب کے بارے میں کھل کر بات کرنے سے متعلق خوفناک رپورٹس سامنے آئی ہیں۔‘‘
جرمن پریس ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق دارالحکومت برلن میں +LGBTQI کمیونٹی سے وابستہ تقریباً 1,200 افراد نے اب تک درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ خبر رساں ایجنسی کے این اے کی رپورٹ کے مطابق دوسرے بڑے شہروں میں بھی اسی طرح کی دلچسپی کا اظہار سامنے آیا ہے۔
جرمن پارلیمنٹیرین اور ٹرانس جینڈر خاتون نائکے سلاویک، جنہوں نے گرین پارٹی کے لیے مجوزہ بل پرمذاکرات میں مدد کی تھی، نے اس قانون کو بین الاقوامی اہمیت کی تاریخی اصلاحات قرار دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں یہ ایسے وقت میں امید کی ایک علامت ہے جہاں دائیں بازو کی پاپولسٹ آوازیں پھر سے بلند ہو رہی ہیں اور بدقسمتی سے جہاں بہت سے ممالک میں ''ایل جی بی ٹی کیو ای پلس‘‘ کمینٹی سے تعلق رکھنے والے غیر معمولی شہریوں کے حقوق کا معاملہ آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا۔‘‘
’جنس کے موضوع پر بات نہ کریں‘، اطالوی معاشرہ مخمصے میں
رچرڈ کوہلر ٹرانسجینڈر یورپ اور وسطی ایشیا (TGEU) کے ماہر مشیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام نے جرمنی کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون اور اس ضمن میں گزشتہ دس سالوں کی یورپی پیش رفت کی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ اب یہ یورپ کا 12 واں ملک ہے جس نے خود ارادیت کے قانون کو نافدالعمل بنانے کی قانون سازی کی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آئیے اس کا سامنا کریں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بہت ہی ذاتی طور پر بہت کم لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور ان کے انتخاب کا احترام کرنا کسی اور کو نقصان نہیں پہنچاتا، لیکن یہ وقار اور آزادی کی بنیادی اقدار کو برقرار رکھتا ہے جو ہم سب کا اشتراک ہے۔‘‘ کوہلر نے متنبہ کیا کہ یورپی خطے کے بہت سے دوسرے ممالک میں، جارجیا اور روس سمیت مذکورہ قانون اور جنس کی طبی منتقلی پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
خوف سے بھرپور بحث
کالے ہیومفنر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بے چینی اور بدسلوکی کے خوف نے اس بحث کو جنم دیا ہے جس میں ٹرانس جینڈر افراد کو بار بار ممکنہ مجرموں کے کردار میں دیکھا جاتا ہے۔ ان کے بقول،''پورے قانون سازی کے عمل کے دوران بار بار یہ بھولا گیا کہ یہ معاملہ اب بھی انتہائی پسماندہ گروہ کے بنیادی حقوق کے بارے میں ہے۔‘‘
پاکستان میں تبدیلیٴ جنس کے کامیاب آپریشنز
تبدیلیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا ان افراد کو ان کی جنس کی بنیاد پر ان کے احاطے تک رسائی سے انکار کیا جائے گا؟ ہیومفنر نے کہا ''خواتین کے ساؤنا کے بارے میں کافی بحث ہوئی تھی۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ بہت سی ٹرانس وومین شاذ و نادر ہی یا کبھی بھی ساؤنا میں نہیں جاتیں کیونکہ ان جگہوں پر ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ گھورا جاتا ہے اور ان کی موجودگی کو ناگوار سمجھا جاتا ہے۔‘‘
جولی گریگسن/ ک م/ ع س