جرمنی: وین راہگیروں پر چڑھا دی گئی، متعدد افراد ہلاک یا زخمی
7 اپریل 2018وفاقی جرمن دارالحکومت برلن اور جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر میونسٹر سے ہفتہ سات اپریل کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یہ حملہ آج سہ پہر کیا گیا اور اس واقعے میں ایک شخص نے اپنی مال بردار گاڑی شہر کے وسط میں راہ گیروں کے ایک ہجوم پر چڑھا دی۔
برلن کار حادثہ، ’کیا یہ ایک حملہ تھا‘؟
’برلن حملہ آور گرفتار کیا جا سکتا تھا‘
صوبائی پولیس کے ابتدائی بیانات کے مطابق اس واقعے میں متعدد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے۔ میونسٹر کی پولیس نے آخری خبریں آنے تک زخمیوں کی تعداد 50 تک بتائی ہے۔ ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا گیا۔
ایک سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے میں دانستہ حملے یا ممکنہ دہشت گردی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دیگر رپورٹوں کے بطابق مرنے والوں میں اس حملے میں استعمال ہونے والی وین کا ڈرائیور بھی شامل ہے، جس نے مبینہ طور پر اپنی گاڑی عام راہ گیروں پر چڑھانے کے بعد خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔
جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامے ’بِلڈ‘ نے لکھا ہے کہ اس ’حملے میں تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے اور پولیس نے میونسٹر شہر کے اندرونی حصے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق میونسٹر میں جو نارتھ رائن ویسٹ فلیا اور صوبے لوئر سیکسنی کی سرحد پر واقع ایک شہر ہے، اس تازہ حملے نے دسمبر 2016ء میں جرمن دارالحکومت برلن میں کیے گئے اس حملے کی یاد ایک بار پھر تازہ کر دی ہے، جب ایک پناہ گزین کے طور پر جرمنی میں داخل ہونے والے تیونس کے ایک شہری نے ایک ٹرک ایک کرسمس مارکیٹ کے شرکاء پر چڑھا دیا تھا۔
اس حملے میں تب 12 افراد مارے گئے تھے۔ اس حملے کے ملزم انیس عامری نے کرسمس مارکیٹ پر حملے کے لیے یہ ٹرک 19 دسمبر 2106ء کو اس کے ڈرائیور کو قتل کرنے کے بعد اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور پھر اسے برلن میں ایک کرسمس مارکیٹ میں موجود سینکڑوں افراد پر حملے کے لیے استعمال کیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے میونسٹر سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ آج کے اس حملے میں زخمی ہونے والوں میں سے کم از کم چھ افراد شدید زخمی ہیں، جن کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق اس واقعے کے فوری بعد اس کے محرکات اور موقع سے دستیاب ابتدائی شواہد کی روشنی میں صورت حال قطعی غیر واضح ہے اور فی الحال ’حملہ آور‘ کی شناخت کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
م م / ع ب / خبر رساں ادارے