جرمنی کو پیشہ ور ماہرین کی ضرورت ہے
21 مئی 2012پیگی مورموری جلد ہی ریٹائر ہونے والی ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران انہوں نے جتنا کام کیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں کیا۔ وہ برلن کے ایک مشہور علاقے نوئے کُلن میں قائم ایک کلیسائی ادارے کے لیے کام کرتے ہوئے سماجی مسائل کے حل کے لیے مشاورت کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ ہر ہفتے ان کے پاس 20 تک تارکین وطن سماجی مشاورت کے لیے آتے ہیں۔ حال ہی میں یورپی ملک یونان سے جرمن دارالحکومت منتقل ہونے والے کئی تارکین وطن نے اس کلیسائی مشاورتی ادارے سے رجوع کیا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ برلن میں روزگار کی صورتحال کیا ہے اور حصول روزگار کے لیے کیا کچھ کرنا ضروری ہے۔ ایک سال قبل ہر ہفتے بمشکل چار پانچ تارکین وطن ہی اس ادارے سے رجوع کیا کرتے تھے۔ خود بھی یونانی نژاد یہ سماجی کارکن 1967ء سے جرمنی میں آباد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ خاصا پریشان کن ہے۔
بحران زدہ یورپی ممالک سے جرمنی کی طرف ہجرت کرنے والے تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں وفاقی جرمن دفتر شماریات نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ برس صرف یونان سے جرمنی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد قریب چوبیس ہزار تھی۔ یہ یونانی باشندے جرمنی میں آباد ہونے اور یہاں کام کرنے کی غرض سے اپنا وطن ترک کر جرمنی آئے۔ 2010ء کے مقابلے میں یہ تعداد 10 ہزار یا قریب 90 فیصد زیادہ تھی۔
اسپین سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں بھی 50 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ مجموعی طور پر 2011ء میں جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد نو لاکھ 58 ہزار رہی، جو 2010ء کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ تھی۔
1996ء سے آج تک جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں یہ سب سے بڑا سالانہ اضافہ تھا، جس کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ گزشتہ برس مشرقی یورپی ممالک کے باشندوں پر لگی پابندیوں کا ہٹایا جانا تھی۔ اس کے سبب پولینڈ، رومانیہ اور ہنگری کے جرمنی میں آباد ہونے والے باشندوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
تارکین وطن کے لیے ملے جُلے سگنل
برلن میں کلیسائی تنظیم ’ڈیاکونی‘ کے دفتر آنے والے زیادہ تر افراد پیشہ ور ماہرین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ وہ اکثر ایسے انجینئر، ڈاکٹر یا دیگر پیشہ ور ماہرین ہوتے ہیں، جنہیں اپنے ملکوں میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ ان میں سے زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں۔ پیگی مورموری کا کہنا ہے کہ جرمنی کے اقتصادی شعبے کو اس وجہ سے خوش ہونا چاہیے۔
جرمنی میں روزگار فراہم کرنے والے اداروں کی وفاقی تنظیم کے سربراہ Dieter Hundt کے بقول ملکی آبادی میں تبدیلی کے سبب جرمنی کو قریب دو ملین غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت ہے، خاص کر تکنیکی شعبے میں۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے ضروری امر یہ ہے کہ جرمنی میں غیر ملکی کارکنوں کے لیے ایسی خوشگوار فضا پیدا کی جائے کہ یہاں آ کر انہیں محسوس ہو کہ ان کا واقعی خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ ڈیٹر ہُنڈ کے بقول انہیں احساس دلایا جانا چاہیے کہ جرمنی کو ان کی ضرورت ہے۔
ماہر اور بہت ہنر مند کارکنوں کے لیے جرمنی یورپی یونین کے اندر ہی اپنی تلاش جاری رکھے ہوئے تھا۔ تاہم جرمن لیبر مارکیٹ کی یہ ضرورت صرف یورپی یونین کے ملک ہی پوری نہیں کر سکتے۔ اس لیے جرمن حکومت نے یورپی یونین سے باہر کے ملکوں سے ہنر مند کارکنوں کو ملک میں لانے پر توجہ مرکوز کی۔ اس عمل کو بلیو کارڈ کے طریقہء کار نے آسان بنا دیا۔ اس کارڈ کی مدد سے غیر یورپی تارکین وطن یورپی یونین کے کسی بھی رکن ملک، خاص طور پر جرمنی آ کر یہاں آباد ہو سکتے ہیں۔
حال ہی میں یہ قانون نافذ العمل بھی ہو گیا کہ جس کارکن کے پاس اعلیٰ تعلیم کی ڈگری اور ملازمت کا کنٹریکٹ موجود ہو، اور وہ 44.800 یورو سالانہ تنخواہ کا ثبوت پیش کر سکتا ہو، وہ یورپی یونین کے رکن کسی بھی ملک میں کام کر سکتا ہے۔ تاہم چند ایسے پیشوں میں جن سے وابستہ کارکنوں کی شدید ضرورت ہے، غیر ملکی تارکین وطن کے لیے سالانہ تنخواہ کی حد کم کر کے 35 ہزار یورو رکھی گئی ہے۔
برلن میں ’ڈیاکونی‘ کی سماجی کارکن مورموری کہتی ہیں کہ تارکین وطن کا تعلق یورپی یونین سے ہو یا دنیا کے کسی دوسرے خطے کے ملک سے، ان کے لیے جرمنی میں سماجی اور معاشی صورتحال کو خوشگوار تر اور زیادہ دوستانہ بنانے کی ضرورت ہے۔
N. Martin , km / mm